آج عید قربان ہے‘ کئی برس یا کئی دہائیاں پہلے کے مقابلے میں آج کے زمانے کی عید بہت مختلف ہوگئی ہے لیکن اس کا ذکر بعد میں پہلے عید سے ایک دن پہلے تک کی دو تین خبروں کا ذکر دلچسپ رہے گا۔ آصف زرداری لاہور آئے تو کہا‘ سیاسی لڑائی میں کہیں شیطان فائدہ نہ اٹھا لے۔ یہ شیطانِ محترم کے خلاف صریحاً ہرزہ سرائی تھی جس کا نوٹس لیا جانا چاہئے تھا۔ سو مولوی صاحب نے لیا اور ڈی چوک کے کنٹینر پر کھڑے ہو کر لیا۔ فرمایا‘ زرداری زبان کو لگام دیں ورنہ ہم ان کی زبان گدّی سے کھینچ لیں گے۔ امید ہے زرداری کو یہ وارننگ سمجھ میں آگئی ہوگی اور آئندہ وہ اس قسم کی ہرزہ سرائی سے باز رہیں گے۔ زرداری کی زبان گدّی سے کھینچنے کی دھمکی پر پیپلزپارٹی کے سینٹر بابر اعوان اتنے پر جوش ہوئے کہ ایک اونٹ کہ خشکی کا جہاز کہلاتا ہے مولوی صاحب کی نذر کیا جو آج قربان ہوگا۔ اس اونٹ کی مالیت کتنی تھی یہ پتہ نہیں چل سکا۔ یقیناًیا اندازاًیہ مالیت اس مٹھائی کی مالیت سے کہیں زیادہ ہوگی جو ڈاکٹر صاحب نے1979ء میں بھٹو کی پھانسی پر بانٹی تھی۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب غریب غربے ہوا کرتے تھے‘ پھر خدا تعالیٰ کی نوازشات کا سلسلہ ان پر شروع ہوا اور دولت چھپڑ پھاڑ کر ملنے لگی۔ اب تک ان پر اتنے چھپڑ پھٹ چکے ہیں کہ خود اعوان صاحب کو بھی یاد نہیں ہوگا۔ ایک چھپڑتو ایسا پھٹا کہ اس میں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی۔ یہ موخر الذکر چھپڑ پھٹنے کے بعد اعوان صاحب خود کو ڈاکٹر کہلوانے لگے۔ ڈگری ان کے پاس ہے وہ خود کو ڈاکٹر کہلوا سکتے ہیں اور ڈگری کے بارے میں انہی کے پارٹی کے اسلم رئیسانی‘ سابق وزیراعلیٰ کا فرمان مستند ہے کہ ڈگری ڈگری ہوتی ہے چاہے ۔۔۔خیر‘ اب اعوان صاحب پر خدا کا اتنا فضل ہے کہ اونٹ کہ صحرا کا جہاز ہے کوئی معنے ہی نہیں رکھتا‘ وہ چاہیں تو ڈاکٹر صاحب کو سمندر کا جہاز بھی تحفے میں دے سکتے ہیں لیکن اس لئے نہیں دے رہے کہ سمندری جہاز خاصا بڑا ہوتا ہے‘ مولوی صاحب کے کینیڈا والے ’’فارم ہاؤس‘‘ کے سوئمنگ پول میں آئے گا نہیں۔ عید سے پہلے ہی جاوید ہاشمی نے یہ انکشاف کیا کہ مشہور عالم پاشا صاحب لاہور میں بیٹھ کر ان کے خلاف مہم چلا رہے ہیں جس کا مقصد انہیں ملتان کے ضمنی الیکشن میں ہرانا ہے۔ اگر ہاشمی کا یہ دعویٰ درست ہے تو مبارک ہو‘ وہ ملتان کا الیکشن جیت جائیں گے اس لئے کہ مشہور عالم پاشا جس کا ساتھ دیتے ہیں‘ اس کا حشر ہو جاتا ہے۔ دیکھ لیجئے‘ گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کا حشر‘ پھر مولوی کے پہلے حملۂ اسلام آباد(در دورِ زرداری) کا حشر اور اب دونوں کے دھرنوں کا حشر۔ مشہور عالم پاشا اپنے پورے ریکارڈ میں ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے سوا کسی کے کام نہیں آسکے۔ قسمت کی بات ہے‘ اس کا سعد و نحس سے تعلق نہیں اور واضح رہے‘ مشہور عالم نام نہیں ہے‘ پاشا کی ’’صفت‘‘ ہے۔ وہ خود مکھڑا کم ہی دکھاتے ہیں‘ پردۂ غیب کے پیچھے بیٹھ کر سکرپٹ لکھنے لکھانے کا کام کرتے ہیں اور جو بھی کرتے ہیں‘ مشہور عالم ہو جاتا ہے اسی مناسبت سے انہیں مشہور عالم پاشا کہا جاتا ہے۔ ورنہ نام ان کا کچھ اور ہے۔ مشہور عالم ان کی صفت ہے لیکن اب تخلّص بنتا جا رہا ہے۔ سنا ہے‘ سی آئی اے کے کام میں برکت کے لئے ایک سکرپٹ اس کے لئے بھی لکھا تھا جو شکریے اور ان ریمارکس کے ساتھ واپس کر دیا گیا کہ ع
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اسکا آسمان کیوں ہو
البتہ ان کی خدماتِ سابقہ کو خراج تحسین پیش کرنے سے اس معذرت نامے میں گریز نہیں کیا گیا تھا‘ دل کھول کر پیش کیا گیا۔
یہ قبل از عید کی دو تین خبروں کا تذکرہ تھا‘ عید کا ذکر یوں ہے کہ کئی برسوں سے عید کی تمہید خود کشیوں میں اضافے کی خبروں کی صورت طلوع ہوتی ہے۔ غیر ملکی سفارت خانے جب اخبارات میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کی خبریں پڑھتے تو سمجھ جاتے ہیں کہ عید قریب ہے۔ خودکشیاں‘ جب سے پاکستان امریکی جنگ کا کمانڈو بنا ہے‘ ہر روز کا معمول ہیں لیکن عید تو گویا خودکشیوں کا کلیرنس میلہ بن جاتی ہے۔ نئے کپڑے اور عیدی تو اکثریتی عوام کے لئے نو آبادیاتی دور کی یادگاریں بن گئی ہیں اور بڑی عید پر بکرا بھی۔ ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے ہے اور خطِ غربت سے نیچے ہونے کا مطلب وہ لوگ کم ہی سمجھتے ہیں جو خطِ غربت سے کچھ اوپر رہائش پذیر ہیں۔ خطِ غربت سے بہت اوپر رہنے والوں کا ذکر اس لئے نہیں کیا جا رہا کہ وہ ایسے کالموں اور مضامین کے قاری نہیں ہیں اور اس لئے مخاطب بھی نہیں ہو سکتے جن میں غربت یا خطِ غربت کا ذکر ہو۔ آج کل ان بہت اوپر رہنے والوں کا ’’اجماع‘‘ تحریک اشراف پر ہو چکا ہے اور یہ لوگ اردو اخبارات بالکل نہیں پڑھتے‘ کنسرٹ اور میلوں سے فراغت پا کر یہ لوگ فیس بک پر گالیاں لکھتے ہیں اور مزید فارغ وقت میں نئی گالیاں ایجاد کرتے ہیں۔
امریکی جنگ نے غربت اتنی بڑھا دی ہے کہ اب خط غربت سے نیچے رہنے والے وہ لوگ ہیں جو دن کو روٹی کھا لیں تو انہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ رات کو بھی ملے گی یا نہیں۔ اس طبقے کے لوگ دس بارہ برس پہلے عید منا لیتے تھے‘ نئے کپڑے‘ بہت مہنگے نہ سہی‘ درمیانے اور سستے ہی سہی‘ بنوا لیتے تھے اور بچّوں کو بھی‘ آج کل کے حساب سے سو دو سو نہ سہی‘ دس بیس روپے عیدی بھی دے دیا کرتے تھے لیکن پھر ایک دجّال1999ء میں ایسا نازل ہوا کہ پیچھے اس کے امریکی جنگ بھی چلی آئی اور اب اس طبقے کے لوگوں کا حال یہ ہے کہ عید کے دن منتظر رہتے ہیں کہ کوئی صاحب خیر آئے‘ دس روپے کا نوٹ انہیں خیرات زکوٰۃ صدقات کی مد میں دے دے تو دو روٹی خرید کر پانی سے بھگوئیں اور کھالیں۔ اور اسی دور میں یہ بھی ہوا کہ ایلیٹ کلاس کے نیچے اور اپر مڈل کلاس کے اوپر ایک اور طبقہ بھی وجود میں آیا کہ اسے الٹرا مڈل کلاس کہئے۔ ایسا ہی ماجرا لوئر مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کے درمیان بھی ہوا جسے مڈ آف دی مڈل کلاس کہہ لیجئے۔ ان کی اوپر کی پرتوں میں اور نیچے کی پرتوں میں آمدنی اور زرمبادلہ کے ذخائر کا بڑا فرق ہے لیکن لائف سٹائل ان سب کا ایک ہی ہے جس کی وجہ سے لوئر مڈل کلاس اور باٹم آف دی لوئرمڈل کلاس (یہ کلاس بھی کہ لوئر کلاس سے اوپر اور لوئر مڈل کلاس سے نیچے ہے‘ اسی دجّال کے دور کی دین ہے)والوں کو ایک جیسے ہی لگتے ہیں۔ تحریک اشراف کے کنسرٹ میں جا کر دیکھ لیجئے‘ موخر الذکر طبقاتِ اسفل والوں کو سارے ہی جہانگیر ترین‘ سارے ہی شاہ محمود لگیں گے۔
ان بالائی طبقات میں زیادہ تر کو قربانی‘ عید‘ نماز‘ روزہ سے کوئی سروکار نہیں لیکن بالائی طبقات کی نچلی تہہ کے مالداروں میں بہت سے ایسے ہیں کہ بڑی عید پر پانچ پانچ لاکھ کے بکرے اور پچاس پچاس لاکھ کے بیل قربانی کے لئے خریدتے ہیں‘ ان کی نمائش کرتے ہیں اور پھر منہ سے یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا کی راہ میں اتنی رقم کیا‘ اس سے بھی زیادہ بھی خرچ کر سکتے ہیں۔
خدا کی راہ؟ ذات پرستی کے مریض یہ لوگ نمود و نمائش کی راہ کو خدا کی راہ کہتے ہیں‘ اور ذرا بھی نہیں ڈرتے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے پانچ پانچ لاکھ کے بکرے اور پچاس پچاس لاکھ کے بیل ان کے منہ پر مار دیئے جائیں گے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو محلّے میں موجود کسی بے کس بیوہ‘ کسی مجبور ماسی‘ کسی یتیم بچے ‘کسی بے روزگار معذورکو چند ہزار تو کجا‘ چند سو دینا بھی حرام سمجھتے ہیں۔ کسی بھی خیر کے کام کے لئے ان کا دہانِ جیب تنگ پڑ جاتا ہے۔ لیکن بات نمود و نمائش کی ہو چاہے بکرا عید کا موقع چاہے شادی بیاہ کا یا اپنے سیاسی رہنما‘ پیر یا گرو کو نذر دینے کا‘ ان کی تجوریوں سے دولت کے جھرنے پھوٹ نکلتے ہیں۔
یہ لوگ ڈیڑھ دہائی پہلے بہت کم تھے اور اس سے پہلے تو بہت ہی کم۔ چلئے‘ ان کا ذکر چھوڑئیے‘ آج چھٹی کا دن ہے‘ ہفتے بھر کے اخبار نکالئے اور میزان کیجئے کہ اس عید سے پہلے کتنی خودکشیاں ہوئیں اور پھر اندازہ لگائیے کہ آج کتنے لوگوں نے پانچ پانچ لاکھ کے بکرے قربان کئے ہوں گے.
Discussion about this post