ریسلنگ دنیا کا مقبول ترین کھیل ہے ، یہ کھیل اب ایک گیم کے ساتھ ساتھ انٹرٹینمنٹ کا بھی اہم حصہ سمجھا جاتا ہے۔ بے شمار تنازعات ، انتظامیہ کی من مانی اور دلچسپ مقابلوں کی کمی کے باوجود شائقین آج بھی ریسلنگ کو اہتمام سے دیکھتے ہیں مگر یہ بات سچ ہے کہ شائقین کی دلچسپی میں کمی ضرورواقع ہوئی لیکن یہ کمی خطرناک حدتک نہیں دیکھنے میں آئی۔
ریسلنگ کو مقبول بنانے میں بے شمار ریسلرز کا کلیدی کردار ہے تاہم ان میں چند نام ایسے ہیں جنہیں ریسلنگ کوبام عروج پر لیجانے کا سب سے زیادہ کریڈٹ دیا جاتا ہے ، ان میں ایک نام براک لیزنر کا بھی ہے جواپنے دورکے بے تاج بادشاہ اور طاقت کے طوفان ریسلر کہلوائے جاتے تھے مگر حالات اورقسمت کی ستم ظریفی نے ماضی کے مضبوط ترین پہلوان کوایک سال تک ہسپتال کے بیڈ پر سلائے رکھا اور اس کے سخت رویے اورغصیلی طبیعت نے بھی بے حد نقصان پہنچایا ،یہی وجہ ہے کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے ڈبلیو ڈبلیو ای کی رنگ میں نہیں دیکھے گئے بلکہ ٹی این اے میں بھی ان کا وجود دور دور تک نظر نہیں آتا۔
براک لیزنر کا عالمی شہرت ڈبلیو ڈبلیو ای سے ملی اور ڈبلیو ڈبلیوای نے انہیں واپس لانے کی سرتوڑکوششیں بھی کیں لیکن لیزنر نے ہربار واپسی سے انکار کیا اور حتیٰ کہ کئی مواقعوں پر انہیں بطورمہمان ریسلر بھی شرکت کی دعوت دی گئی لیکن انہوں نے دعوت قبول کرنے سے ہمیشہ انکار ہی کیا۔ 12 جولائی 1977ء کو پیدا ہونے والے براک لیزنر نے اپنے ریسلنگ کیرئر کا آغاز مینیسوٹا یونیورسٹی سے کیا۔
لیزنر نے بی اے تک تعلیمی میدانوں میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی اور ماسٹر کی ڈگری کے حصول کیلئے لیرنز نے ریسلنگ کوٹے کی بنیادی پر یونیورسٹی میں داخلہ لیا تاہم یونیورسٹی میں وہ ریسلر کی بجائے فٹبالر کے طور پر اپنی پہچان بنانے میں کامیاب رہے البتہ ریسلنگ سے ان کی وابستگی کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔یونیورسٹی میں ان کے روم میٹ ڈبلیو ڈبلیو ای کے ایک اور سٹار شلٹن بینجمن تھے اور ان کے ساتھ وقت گزرانے کی وجہ سے لیزنر کی دلچسپی فٹبال سے کم ہوکر ریسلنگ میں بڑھنے لگی اور ابتدا میں ان کی کوچنگ کے فرائض بھی بینجمن نے انجام دئیے اور بعد میں لیزنر نے انہیں اپنا اسسٹنٹ کوچ بھی بنایا۔
2000ء کے اوائل میں لیزنر نے نیشنل کالجیٹ چیمپئن شپ جیت کر کیرئیر کی پہلی بڑی کامیابی حاصل کی اور اس جیت کے بعد وہ سب کچھ چھوڑ کر ریسلنگ رنگ میں کود پڑے اور اپنی تمام تر توانائیاں ڈبلیو ڈبلیو ای تک رسائی حاصل کرنے پر صرف کرڈالیں ، کہتے ہیں کہ اگر انسان کا عزم بلند ہو تو منزل خود چل کر آتی ہے اور یہی کچھ لیزنر کے کیرئیر میں ہوا ، اس نے جب یہ مقصد بنالیا کہ وہ ڈبلیو ڈبلیو ای تک رسائی حاصل کریگا چاہئے اس کیلئے کچھ بھی کرنا پڑے ، تو اُس کے عزم کے سامنے تمام مشکلات پاش پاش ہوگئیں اور وہ انتہائی کم مدت میں ڈبلیو ڈبلیو ای رنگ میں جاپہنچا۔
2001ء میں براک لیزنر کی ڈبلیو ڈبلیو ای میں آمد کسی ہوا کے تازے جھونکے کی مانند تھی۔ اس وقت کوئی بھی شخص یہ اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اس ادارے سے وابستہ ہونے والا نوجوان آگے چل کر ریسلنگ کی تاریخ کا عظیم ترین عالمی چیمپئن بنے گا اور لیزنر نے بھی مختصر عرصہ میں یہ ثابت کر دیا کہ وہ کوئی معمولی ریسلر نہیں ہے۔ڈبلیو ڈبلیو ای جوائن کرنے کے بعد ادارے نے براک کو اوہیو ویلی اپنے ٹریننگ سینٹر بھیجا جہاں اُسے کچھ عرصہ ریسلنگ کے داؤ پیج سمجھائے گئے اور پہلی بار انہیں 18مارچ 2002ء کو ریسل مینیا 8کے اگلے روز ”را“کلب میں جاری میچ جس میں سپائیک ڈیڈلی ،میون اور النسو ایک دوسرے کے مدمقابل تھے اسی دوران شائقین کے درمیان سے اچانک لیزنر نمودار ہوئے اور رنگ میں پہنچ کر تینوں کی خوب دھلائی کرکے شائقین کی زبردست داد سمیٹی۔
براک لیزنر کی پہلی باقاعدہ فائٹ جیف ہارڈی کیخلاف تھی جس میں لیزنر نے ہارڈی کو چاروں شانے چت کرکے اپنے خطرناک عزائم کا اظہار کیا ، اگلے دن لیزنر کے مقابلے میں جیف کے بھائی میٹ ہارڈی کو رنگ میں اتارا گیا تو یہاں بھی یکساں انداز میں میٹ ہارڈی کو لیزنر کے ہاتھوں رسوا ہونا پڑا بعدازاں سالانہ مین ایونٹ ججمنٹ ڈے کے موقع پر دونوں ایک ساتھ لیز نر کے مدمقابل آئے اور یہاں بھی طاقت کے اس طوفان نے شیر کی مانند دونوں کے ساتھ مقابلہ کیا اور زبردست انداز میں کامیابی سمیٹ کر اپنی برتری کو برقرار رکھا۔
لیزنر نے ڈبلیو ڈبلیو کی رنگ میں پہلا بڑا اعزاز کنگ آف دی رنگ ٹائٹل کی شکل میں حاصل کیا ، جون 2002ء میں براک لیزنر نے اپنے حریف آر وی ڈی کو آخری راؤنڈ میں شکست دیکر کنگ آف دی رنگ ٹائٹل جیت کر سمرسلام مقابلوں میں ڈبلیو ڈبلیو ای چیمپئن شپ کی فائٹ کیلئے کوالیفائی کیا جہاں 25 اگست 2002ء کو نیویارک میں منعقد سمر سلام مقابلوں میں براک لیزنر نے 25 سال کی عمر میں راک کو شکست دیکر سب سے کم عمر عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
اب یہ ریکارڈ رینڈی اورٹن کے پاس ہے جس نے 24 سال کی عمر میں کرس بنیوا کو شکست دے کرکم عمر ورلڈچیمپئن بننے کا اعزاز اپنے نام کیا۔ براک لیزنر نے 25 سال کی عمر میں ڈبلیو ڈبلیو ای کے آئی کن‘ دی راک کو اس کے دور عروج میں عبرتناک شکست سے دوچار کرکے وہ کارنامہ سرانجام دیا جس کی ماضی میں بھی مثال نہیں ملتی۔ 6 فٹ 5 انچ قد اور 295 پونڈ وزن کے حامل براک لیزنربے شمار خوبیوں کے مالک ریسلر تھے، وہ چیتے کی مانند اپنے حریف پر حملہ آور ہوتے اور اسے موقع دئیے بغیر دیکھتے ہی دیکھتے پچھاڑ کر رکھ دیتے تھے۔
ڈبلیو ڈبلیو ای میں جہاں براک لیزنر نے اپنی بے پناہ طاقت کی بدولت بڑے بڑے نامور برجوں کو الٹ کر رکھ دیا تو وہیں اس کا کریڈٹ اس کے سابق منیجر پال ہیمن کو بھی جاتا ہے۔ لیزنر کو عالمی چیمپئن بنوانا اور ناقابل شکست بنانے میں پال ہیمن کی دماغی چالوں کابھی بہت بڑا عمل دخل ہے۔ انڈر ٹیکر اور دی راک جیسے سپر سٹاروں کے خلاف براک کی کامیابیاں انہی کی مرہون منت ہیں۔
2003ء میں اگر پال ہیمن انڈر ٹیکر کا ہاتھ رنگ سے باہر نہ تڑواتے تو یہ بات یقینی ہے کہ لیزنر کیلئے سٹیل کیج رنگ میں انڈر ٹیکر کو ہرانا ناممکن تھا۔ براک لیزنر اور پال ہیمن کے درمیان رقابت کی چنگاری اس وقت بھڑکی جب لیزنر کو اُس نے بگ شا کے خلاف ڈبلیو ڈبلیو ای ورلڈ چیمپئن شپ مقابلے میں نہ لڑنے کو کہا۔ لیکن براک ہر نامور ستون کو گرانا چاہتا تھا اور وہ اس پہاڑ سے ٹکر لے رہا تھا جس نے بھی اسے اس کی بیلٹ کے لئے للکارا ۔
لیزنر نے نمبر ون اور ناقابل تسخیربننے کیلئے پال ہیمن کی رائے کو پس پشت ڈال کر بگ شا کے خلاف رنگ میں اترنے کا اعلان کیا۔ اس میچ میں براک نے بگ شا کو اٹھا کر جب رنگ میں پٹکا تو رنگ میں لگے چاروں ستون گر پڑے اور تختے ٹوٹنے سے رنگ نیچے بیٹھ گیا۔ عین اس وقت جب ریفری تین تک گنتی پوری کرنے والا تھا کہ پال ہیمن نے براک کو پیچھے کھینچ کر مقابلہ جیتنے سے محروم کردیا۔
براک کے لئے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ پال ہیمن یہاں تک کا بھی سفر کر سکتا ہے اورپھر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بگ شا نے لیزنر کو ہرا کر عالمی چیمپئن کا ٹائٹل اپنے نام کر لیا۔ کچھ دنوں بعد بگ شا کرٹ اینگل سے بیلٹ ہار گئے بعد ازاں لیزنر نے کرٹ اینگل کو چت کر کے اپنا اعزاز دوبارہ حاصل کر لیا۔ براک لیزنر تین مرتبہ ڈبلیو ڈبلیو ای کی عالمی چیمپئن شپ جیتنے کے علاوہ ایک ایک مرتبہ کنگ آف دی رنگ اور رائل رمبل جیتنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔
2002ء میں انہیں ریسلر آف دی ایئر کا خطاب دیا گیا اور 2003ء میں ان کو کرٹ اینگل کے خلاف خونریز میچ میں کامیابی کی بدولت میچ آف دی ایئر کا ایوارڈ دیا گیا۔ 2004ء میں ایڈی گوریرو کے خلاف ڈبلیو ڈبلیو ای ورلڈ چیمپئن شپ کے مقابلے میں گولڈ برگ کی مداخلت کے باعث بری طرح شکست کھا گئے۔ بعد میں ایڈی گوریرو سے ری میچ میں اپنا اعزاز واپس حاصل کرنے کی بجائے اس طاقت کے طوفان نے گولڈ برگ سے مقابلہ کرنے کو ترجیح دی اور یہ میچ دونوں کے کیرئر کا آخری میچ بھی ثابت ہوا جب یہ دونوں عظیم ترین پہلوان رنگ میں ایک دوسرے کے سامنے آئے تو دونوں کی وحشت دیکھنے کے لائق تھی۔
یہ دوسرا موقع تھا جب پوری دنیا کے شائقین کو کسی میچ کا بے صبری سے انتظار تھا۔ اس سے پہلے 2002ء میں ہاک ہوگن اور راک کے درمیان مقابلے میں شائقین کی بے تابی اور بے صبری نظر آئی تھی۔ گولڈ برگ اور براک لیزنر کے درمیان لڑے جانیوالے میچ کا نام تھا کہ کون حقیقی چیمپئن ہے‘ بدقسمتی سے تین سال تک ڈبلیو ڈبلیو ای میں راج کرنے والے براک لیزنر کو گولڈبرگ نے بری طرح سے پیٹ ڈالا اور یوں اپنے آخری میچ میں شکست کھانے کے بعد لیزنر اپنا دماغی توازن درست نہ رکھ سکے اور رنگ میں اور رنگ سے باہر الٹی سیدھی حرکتیں کرنے لگے جو اس کے چاہنے والوں کیلئے ایک دھچکے سے کم نہیں تھیں۔
گولڈبرگ سے پٹنے کے بعد یہ کم از کم تین ماہ تک اسمیک ڈاؤن کی رنگ میں آتے رہے۔ آخر میں لیزنر نے کمزور اور چھوٹے پہلوانوں کو بری طرح تضحیک کا نشانہ بنانا شروع کر دیا جن میں کئی ایک شدید زخمی بھی ہوئے۔ بعد ازاں ڈبلیو ڈبلیو ای کے مالک میک موہن نے اسے وارننگ بھی دی تھی کہ وہ اپنا رویہ ٹھیک کر کے اہم مقابلوں میں حصہ لے لیکن براک لیزنر نے انکار کرتے ہوئے ریسلنگ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا۔
لیزنر آج بھی اس بات پر قائم ہے کہ اس نے خود فٹ بال کی خاطر ریسلنگ سے علیحدگی اختیار کی لیکن ڈبلیو ڈبلیو ای کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اسے خراب رویہ کی وجہ سے معطل کرنے کی وارننگ دی گئی تھی جس کے بعد وہ ڈبلیو ڈبلیو اسی سے رخصت ہوگیا اور کچھ عرصہ تک امریکن نیشنل لیگ کی جانب سے فٹبال کھیلنے کے بعد وہ ایک بار پھر ریسلنگ مقابلوں کو مس کرنے لگا۔
لیزنر کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ ہر وقت اسی ٹینشن میں رہتا تھا کہ وہ ایک طاقتور ہونے کے باوجود گولڈبرگ سے شکست کیوں کھا گیا۔ اسی صورتحال سے دوچار، ایک مرتبہ ہیوی بائیک چلاتے ہوئے سامنے سے آنے والے کنٹینر سے ٹکرا گئے جس سے ان کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی۔ پھر تقریباً 8 ماہ بستر پر رہنے کے بعد انہوں نے دوبارہ ورزش شروع کی اور فٹ بال مقابلوں میں حصہ لیتے رہے۔
پھر اچانک انہوں نے ریسلنگ میں آنے کا فیصلہ کیا اور ڈبلیو ڈبلیو ای کے صدر دفتر نیویارک جا دھمکے جہاں ان کے ساتھ کئی روز تک بات چیت چلتی رہی لیکن کوئی بہتر نتیجہ اخذ نہیں ہو سکا۔ ڈبلیو ڈبلیو ای نے لیزنر پر کورٹ میں مقدمہ کیا جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ وہ ڈبلیو ڈبلیو ای کو بغیر بتائے پروریسلنگ میں شریک ہوئے تاہم لیزنر نے ان الزامات کی نفی کی اور طویل عرصہ بحث چلنے کے بعد ستمبر 2005ء میں لیزنر نے ڈبلیو ڈبلیو ای کو دوبارہ جوائن کرنے سے باقاعدہ انکار کردیا اور تمام مذاکرات ناکام ہونے کے بعد دونوں فریق اپنے اپنے دعوؤں سے دستبردار ہوگئے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے راہیں جدا کرلیں ۔
ماہرین کہتے ہیں کہ لیزنر کو ڈبلیو ڈبلیو ای چھوڑ کر شدید نقصان پہنچا کیونکہ وہ اپنے عروج پر تھے اور انہیں ڈبلیو ڈبلیو ای سے وابستہ رہنا چاہئے تھا اور شائقین کی بھی یہی خواہش تھی کہ لیزنر رنگ میں نظر آئے مگر شاید لیزنر خود ذاتی طور پر ڈبلیو ڈبلیو ای کی رنگ کو ناپسندکرنے لگا تھا جس کی وجہ ممکن ہے گولڈبرگ کیخلاف ناقابل فراموش شکست تھی جس نے اُسے ڈبلیو ڈبلیو ای سے باغی کردیا تھا ۔
ڈبلیو ڈبلیو اسی سے راہیں جدا ہونے کے بعد لیزنر نے جاپان کی راہ لی اور پروریسلنگ میں شمولیت اختیار کر لی، 8 اکتوبر 2005ء کو جاپانی رنگوں کے نامور پہلوان کازوکی فوجیتا اور ماساہیرو کو بھوکے شیر کی طرح چیر پھاڑ کر رنگ سے باہر پھینک کر لیزنر تاریخ کے پہلے پہلوان بنے جس نے ڈبیو کے پہلے ہی ہفتے IWGP ورلڈ ہیوی ویٹ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔ کچھ عرصہ بعد لیزنر نے پروریسلنگ سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی اور مارشل آرٹ فائٹنگ کو جوائن کیا اور یہاں پہلے ہی سال وہ ورلڈہیوی ویٹ چیمپئن بنے اور بعدازاں وہ سبمیشن اور آف دی نائٹ چیمپئن بنے رہے۔
اسی دوران انہیں پسلیوں کی شدید تکلیف لاحق ہوئی اور وہ ایک سال تک ہسپتال میں زیر علاج رہے اور رواں برس اکتوبر میں ان کی دوبارہ واپسی ہوئی اور شائقین توقع کررہے تھے کہ وہ ڈبلیو ڈبلیو ای میں واپس آئیں گے لیکن اُس نے صحت یابی کے بعد بھی مارشل آرٹ فائٹنگ کوترجیح دی اور اپنی پہلی فائٹ میں انہیں سبمیشن ٹائٹل مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اب دوبارہ وہ اس ٹائٹل کے حصول کیلئے تیاریوں میں مصروف ہیں ۔ لیزنر آج بھی ریسلنگ شائقین میں بے حدمقبول ہیں مگر شائقین کی اکثریت انہیں ڈبلیو ڈبلیو ای کے رنگ میں دیکھنا چاہتی ہے جس کیلئے وہ خود راضی نہیں ہیں ۔
© 2018 - Zamung Swat News & Design s by Kinghost Solutions.
© 2018 - Zamung Swat News & Design s by Kinghost Solutions.
Discussion about this post