درگئی(زمونگ سوات ڈاٹ کام )گورنمنٹ ذیشان شہید ہائیرسیکنڈری سکول نمبر ون درگئی میں 120کے قریب طلباء بے ہوش ہوگئے۔ جیسے درگئی ہسپتال منتقل کئے گئے۔بعد ازاں بے ہوش ہونے کی فوری وجہ صبح کی اسمبلی میں تپتی دھوپ میں بچوں کو زیادہ دیر تک کھڑاکرنا بتایاجارہاہے۔طلباء کے مطابق ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سید منظر جان ساجدنے اسمبلی کے دوران بچوں کو تقریرکی۔کہ تین بچے اسمبلی ہی کے دوران گر پڑے۔ بچوں کوجیسے ہی قطاروں میں کلاس روم روانہ کئے گئے تو اتنے میں بچوں کی گرنے اور بے ہوش ہونے کی تعداد بڑھنا شروع ہوگیا۔ خبر پھیلتے ہی درگئی ہسپتال ، الخدمت فاؤنڈیشن اور بٹ خیلہ ہسپتال کے ایمبولینس موقع پر پہنچ کر بچوں کو درگئی ہسپتال منتقل کئے جبکہ کئی ایک بچوں کو نزدیک کلینکوں میں بھی فسٹ ایڈ فراہم کیاگیا۔درگئی ہسپتال میں ہنگامی صورتحال نافذ کیاگیا۔ اسسٹنٹ کمشنر درگئی محمد شہاب خان،میجر ملاکنڈ لیویز گل روزخان،لیویز کی بھاری نفری اور پاک فوج کے میجر عامر اور پاک فوج کے جوان سکول اور ہسپتال پہنچ کر حالات کو سنبھالادیا۔خبر پھیلتے ہی ضلع ناظم ملاکنڈ سید احمد علی شاہ باچا، تحصیل ناظم عبدالرشید بھٹو،حاجی اکرم خان، چئیرمین فریداللہ خان ،شفیع اللہ خان ،قاضی رشید، پیر مصور خان غازی، عامر سہیل خان،حاجی جہانگیر خان، وحید مراد خان،حاجی افتخار خان، سفید خان دریاب،میاں عالمگیر خان،احسان اللہ خان، سکول پرنسپل فدا خان،ڈی او منظر جان ساجد، ڈسٹر کٹ ہیلتھ آفیسر وکیل خان سمیت مختلف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے سماجی اور عوامی افراد نے ہسپتال پہنچ گئے۔سکول میں بچوں کی تعداد زیادہ بے ہوش ہونے کی وجہ سے گیارہ بجے کے قریب بچوں کو چھٹی دی گئی۔ ہسپتال کے انچارج ڈاکٹرسیراج الدین نے بتایا کہ مجھے کسی قسم کی زہریلی مواد نہیں لگ رہے بلکہ یہ صرف گرمی، حبس اور بعدا زاں نفسیاتی دباؤ کا نتیجہ لگ رہاہے۔ لیکن تشویش کی لہر اس وقت دوڑ گئی کہ جب گھروں سے بھی بچوں کو ہسپتال لایاجانے لگا۔جنہیں فوری طور پر علاج معالجہ فراہم کیاگیا۔تاہم ہسپتال میں سرنجوں کو بھی باہر سے منگوائے گئے جس پر جتنا آفسوس کیاجائے کم ہے۔آخری اطلاع تک ہسپتال نے اپنے رجسٹر میں 67بچوں کی تعداد رجسٹر کی تھی ۔ لیکن جو بچے پہلے ہنگامی صورتحال میں لائے گئے اور انہیں جلد فارغ کئے گئے تو ان کے نام درج نہیں کئے گئے۔متاثرہ سکول طلباء کے خون اورسکول میں پیئے جانے والے پانی کے نمونے لیبارٹری ٹسٹ کیلئے بھجوادئے گئے ۔ادھر ڈسٹرکٹ کونسل اپوزیشن لیڈر اور ممتاز قانون دان محمد رازق جان ایڈوکیٹ اورچائلڈرائٹس کمیٹی ملاکنڈکے کوارڈینٹرنسیم اللہ خان ایڈوکیٹ اوردیگر نے ذیشان شہید سکول میں بچوں کے بے ہوش ہونے کے واقعہ پر سخت آفسوس اور تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ مذکورہ واقعہ سکول پرنسپل کی ناآہلی کی وجہ سے پیش آیا۔ سکول پرنسپل نے ڈی او ملاکنڈ کو نمبر بڑھانے کیلئے طلباء کو زیادہ دیر تک کھڑا رکھا۔انہوں نے تقاریر کئے۔ بعد میں گرتے ہوئے بچوں کو سکول اساتذہ نے علاج کی بجائے کمروں میں لے گئے جس سے زیادہ بچوں پر نفسیاتی اثر پڑا۔ انہوں نے کہاکہ سکول پرنسپل کی اپنے اساتذہ پر گرفت کمزور ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر اساتذہ غیر سرکاری سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیاکہ مذکورہ واقعہ کی شفاف تحقیقات کرائی جائے اور واقعہ میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ ۔ادھر واقعے پر میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے ڈسٹرکٹ کونسل اپوزیشن لیڈر اور ممتاز قانون دان محمد رازق جان ایڈوکیٹ نے ذیشان شہید سکول میں بچوں کے بے ہوش ہونے کے واقعہ پر سخت آفسوس اور تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ مذکورہ واقعہ سکول پرنسپل کی ناآہلی کی وجہ سے پیش آیا۔ سکول پرنسپل نے ڈی او ملاکنڈ کو نمبر بڑھانے کیلئے طلباء کو زیادہ دیر تک کھڑا رکھا۔انہوں نے تقاریر کئے۔ بعد میں گرتے ہوئے بچوں کو سکول اساتذہ نے علاج کی بجائے کمروں میں لے گئے جس سے زیادہ بچوں پر نفسیاتی اثر پڑا۔ انہوں نے کہاکہ سکول پرنسپل کی اپنے اساتذہ پر گرفت کمزور ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر اساتذہ غیر سرکاری سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیاکہ مذکورہ واقعہ کی شفاف تحقیقات کرائی جائے اور واقعہ میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے۔گورنمنٹ ذیشان شہید ہائیر سیکنڈری سکول نمبر ایک میں انہونی واقعہ کے خلاف عوام میں بھی مختلف رائے پائے گئے۔ لیکن زیادہ تر لوگوں نے کہاکہ مذکورہ سکول میں بہتر تعلیم و تربیت اور نظم و ضبط کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگوں نے پرائیویٹ سکولوں سے ا پنے بچوں کو نکال کر یہاں داخل کروائے۔ جبکہ کئی ایک نے بجلی لوڈ شیڈنگ کو بھی مورد الزام ٹہرایا۔ساتھ ہی کئی ایک نے کہاکہ اتنے بڑے اور تاریخی سکول میں نہ تو سولر سسٹم ہے اور نہ ہی جنریٹر کا بندوبست موجود ہے۔جبکہ بڑھتے ہوئے تعداد کی وجہ سے ایک ایک کلاس روم میں اپنے مقررہ تعداد سے زیادہ بچوں کو بٹھانے کی وجہ سے حبس بڑھ جاتی ہے جو ہارٹ فیل کا سبب بنتاہے۔تاہم سب کا یہ کہنا تھا کہ آج کے دن بچوں کے والدین کی بھاگم بھاگ دوڑنے اور اپنے بچوں کی موت اور زندگی کی کشمکش کے سوچ کا تقاضا ہے کہ اس واقعہ کی مکمل آزادانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جائے۔
Discussion about this post