تحریر:اسلام گل افریدی
اسلام علیکم گروجی! اس اُمید کے ساتھ کہ آ پ خیریت سے ہونگے اور میرے دوسرے دوست اور آپکے چیلے بھی ٹھیک ہونگے۔
گرو جی میرا بھی دل بہت تنگ ہے اور انتظار کرتی رہی کہ کوئی آ جا آئیگا مگر کئی دن گزر گئے کوئی نہیں آیا۔ انتظار بھی ہماری مقدر بن چکی ہے اور اسی انتظار میں دن رات گزارتے ہیں۔ جب میں چھوٹی تھی تو ہمارے مسجد کے مولانا صاحب سے سُنا تھا کہ مرنے کہ بعد قبر میں پہلا کام کیر منکیرکا ہو تا ہے اورقبرمیں بندے سے بنیادی سولات پو چھتے ہیں۔ خیر گرو جی! آ پ فکر نہ کریں کوئی تو آجائینگے اور ہاں کل رات کو دور سے کئی آوازیں سُنی،زیادہ تو نہیں سمجھابس اتنا سمجھا کہ یہاں پر بھی دنیا کی طرح لوگ مجھے مرد یا عوار ت سمجھنے میں تذبزب کے شکارہے۔ گرو جی! یہاں پر ایک فائدہ ہے کہ یہاں پر مارنے، لوگوں کے طرف سے مذاق اُڑنا، پولیس گردی، نشہ میں دھت لوگوں کا آنا جانا، دنیاکی طرح شریف گھرانوں کے بدتمیز نوجوان گاڑی میں بیٹھ کر بدمعاشی نہیں کرتا۔ گرو جی! رات کو جب نیند آجاتی ہے تو سو جا تی ہوں مگر میرا ایک ہمسایہ حاجی گل داد کا اکلوتا بیٹھا ہے، گرو جی شاید اگر آپ کو یاد ہو یہ اکثر ہمارے بالاخانے آیا کرتاتھا اور نشے میں ہوتاتھا اور اکثر میرے اور دوسرے دوستوں کیساتھ بدتمیزی کرکے چلاجاتا تھا۔ گروجی دنیا میں بھی اس بندے سے تنگ تھی اور یہاں پر بھی۔ کیونکہ یہا ں پر اُن کو کافی تشد د کا نشانہ بنایا جا رہاہے، اور چیخ وپکار کی وجہ سے میری نیند خراب ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف دادا گرو کا مکان ہے مگر کافی خاموشی ہوتی ہے، گروجی اگرآپ کی اجازت ہو تو میں اُس کی خدمت شروع کردیتا ہوں، کیونکہ وہ تو آ پکا گرو تھا۔
گروجی!مجھے معاف کرنا کیونکہ میں آپ کی پوری خدمت نہ کرسکی اور آپ کو چھوڑ دیا، میرا تو ارداہ نہیں تھا۔کوئی نہیں چاہتا ہے کہ دوستوں کو چھوڑ کر چلا جاو مگر ایک شخص چاہتا تھا کہ علیشاہ کازندگی کا حق مارو،اُس نے وہی کیا جو وہ چاہتا تھا۔اُسی وقت کوئی مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ یہاں کوئی کسی کی قدر نہیں کرتا ہے اور ہمیشہ انسان کو ذلیل و رسوا کرتا ہے اور گروجی آپ کو بھی معلوم ہے کہ ہم کتنے بے بس لوگ ہوتے ہیں حتیٰ کہ اپنے زندگی کے بارے میں کسی سے نہیں پوچھ سکتے ہیں اور نہ کوئی پوچھنے کا حق دیتے ہیں۔
گرو جی! آپ اور دوسرے دوستوں کومیری وجہ سے کافی تکلیف ہوئی ہوگی۔میں نے تو اپنے ماں باپ اورگھروالوںکو بھی پیدائش کے بعد کوئی زحمت نہیں دی تھی۔
گروجی!جب مجھے آٹھ گولیاں لگی تو وہاں پر موجود لوگوں نے اس لئے میری مدد نہیں کی کہ میں انسانی دائرے سے باہر کا ایک بندہ تھا۔ جب آپ اور دوسرے ساتھیوں نے مجھے ہسپتال پہنچایا تو وہاں پر مسیحاوں نے کتنی خدمت کی ؟ جوابی خط میں ضروربتا دینا۔ کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ ہم کئی دفعہ ایل ار یچ ہسپتال انتظامیہ کے ساتھ ملی تھی کہ یہاں پر ہمارے خواجہ سراوں کی نہ مردوں کے وارڈ میں جگہ ہوتی ہے اور نہ عورتوں کے۔
گروجی!قاتل کے ساتھ بھی وہی انصاف ہوا جو پہلے دوسرے خواجہ سراوں کے قاتلوں کے ساتھ ہوا تھا۔ پولیس کے بارے میں ضرور تحریر کرنا کہ وہ میرے قاتل کو کتنا تحفظ مہیاکررہے ہیں۔
اچھا گروجی میرے گھروالوں کو پتہ چلا کہ میں مزید اُن کی شرمندگی نہیں بن رہی، سوری گھر میں میری تو صرف ایک ہی بہن تھی جس کے ساتھ میرا تعلق تھا۔میں نے تو اُ ن کے لئے رمضان کا خرچہ ایک الگ کمرے میں رکھا ہوا تھا۔
اور ہاں میں ضروری بات بولنے والی تھی، گرو جی میری تدفین بھی دوسرے خواجہ سراوں کی طرح رات کے اندھیرے میں ہی گمنام جگہ پر ہوئی؟، کیونکہ میں نے زندگی میں کسی دوست کا جنازہ نہیں دیکھاتھا۔ گروجی اگر اسطرح میرے ساتھ ہوا ہو تو یہ تو بہت بڑا ظلم ہوگا کیونکہ میں اندھیرے میں اور اکیلے بہت ڈرتی تھی۔
باقی میں جنازہ، رسم قل اور چہلم وغیرہ کا نہیں پوچھتی۔۔۔۔اور گروجی کیا کوئی برسراقتدار حکومتی نمائندے اور دوسرے سیاسی رہنماء آپ کے ساتھ تعزیت کے لئے آئے تھے کہ نہیں ؟؟اور انسا نیت کے علمبددار سول سوسائٹی کا کیاکردار رہا؟ اور ہاں دوستوں کے بارے میں بھی ضرور لکھنا کہ وہ اب بھی ہمارے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں؟؟
سوری گروجی میں نے آپ کا بہت زیادہ وقت لیا۔
آ پکاچیلہ علیشاہ
نامعلوم جگہ سے
Discussion about this post