تحریر: ناصر عالم
ویسے تو مینگورہ شہر سمیت سوات بھر میں تما م تر اشیائے ضروریہ کے خودساختہ اور من مانے نرخ چلتے ہیں مگر ماہ رمضان میں کاروباری لوگ ناجائز منافع خوری کے ساتھ ساتھ لوٹ مارکا سلسلہ بھی شروع کردیتے ہیں،یہاں پر عام دنوں میں جو نرخ چلتے وہی نرخ ماہ رمضان میں کئی گنابڑھادئے جاتے ہیں کیونکہ ماہ رمضان کے بعدعید آتی ہے اور کاروباری لوگ اپنے لئے عید کی خوشیاں دوبالاکرنے کیلئے دوسروں کی خوشیاں چھیننے کے درپے ہوجاتے ہیںیہی وجہ ہے کہ مرضی کے نرخ چلانے کے ساتھ ساتھ اس بابرکت مہینے میں مضرصحت،ناقص اورغیرمعیاری اشیائے خوردونوش بھی بازاروں اورمارکیٹوں میں پہنچائی جاتی ہیں جنہیں روزہ دار دھڑادھڑخریدکربے خبری میں استعمال کرکے مختلف امراض کے نرغے میں آجاتے ہیں،اس وقت مینگورہ شہر اورآس پاس کے دیگر علاقوں کے بازاروں میں بیشتر خوراکی اشیاء مثلاََ چٹنیاں،سموسے،پکوڑے،چھولے،چکن،ملاؤٹ زدہ دہی ،دودھ ،سوئیاں،پانچے،سالن،قیمہ،مرغیاں اوریہاں تک کہ سڑکوں کنارے سٹالوں پر پڑی ڈبل روٹیاں بھی مضرصحت اورغیر معیاری ہیں کیونکہ ایک تو یہ چیزیں انتہائی ناقص میٹریل سے تیار کی جاتی ہیں اور دوسری طرف یہ اشیاء کھلے آسمان تلے پڑی رہتی ہیں جن پرسارادن گردوغباراوردھول پڑتاہے جس کے نتیجے میں یہ غذازہر میں تبدیل ہوجاتی ہے جس کا استعمال بیک وقت کئی قسم کے امراض کا سبب بن جاتا ہے،اس وقت مینگورہ ناقص اشیائے کے کاروبار کا ایک بڑامرکز بن گیا ہے جہاں پر ہرقسم کی ناقص اورمضرصحت چیزنہ صرف بازروں بلکہ گلی کوچوں میں بھی دستیاب ہے اوراس کی سب سے بڑی وجہ ہے متعلقہ حکام کی لاپرواہی ہے کیونکہ محکمہ صحت او رمحکمہ فوڈکے اہلکارکبھی بازاروں کا رخ نہیں کرتے اور متعلقہ دونوں محکمے خاموش تماشائی کاکرداراداکررہے ہیں تو آخر کون جاکر بازاروں میں نرخنامہ ،صفائی ستھرائی کا نظام اور اشیاء کا معیار چیک کرے گا۔۔؟اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو مینگورہ ایک شہر ناپرسان بن چکاہے جہاں پر جس کے جی میں جو بھی آئے کرگزرے کیونکہ پوچھنے اور روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں،یہاں پر ایک عرصہ سے لوٹ مارکا سلسلہ جاری ہے جس میں بیشترغیر مقامی لوگ جو مختلف کاروبار سے وابستہ ہیں بھی شامل ہیں مگرتاحال کسی نے یہ سلسلہ رکوانا تو درکنار اس طرف توجہ دینے کی زحمت تک گوارہ نہیں کی ہے، مقامی لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ محکمہ فوڈیا محکمہ صحت کے ذمہ داروں نے کبھی شہر میں موجود بیکریوں ،ہوٹلوں ،ریسٹورنٹس،آئس کریم کی دکانوں اوردیگر کاروباری مراکزکا معائنہ کیا ہے کہ وہاں پر صفائی ستھرائی کا نظام کیساہے یا وہاں پرجو چیزیں پکائی اوربنائی جاتی ہیں ان میں کس قسم کا میٹریل استعال ہوتا ہے ۔؟یاان محکموں نے سڑکوں کنارے جس گھی میں سموسے اورپکوڑے پکائے جاتے ہیں اس کے معیارکے بارے میں کبھی معلوم حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔؟اور تو اور اب تو مینگورہ شہر میں ایک اور چیز لائی گئی ہے جسے حرف عام شوارماکہاجاتاہے، یہ چیز بچے بڑے شوق سے کھاتے ہیں مگراس کے بارے میں بھی یہ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ یہ شوارمامردہ اوربیمار مرغیوں کے کوشت سے تیارہوتا ہے جو صحت کیلئے انتہائی خطرناک ہے مگراس طرف بھی کسی نے توجہ دینے کی ضروت محسوس نہیں کی ہے ،مینگورہ شہر میں صبح سے لے کر رات گئے تک ناقص اشیاء کے کاروبار کا سلسلہ جاری رہتا ہے مگرخصوصاََ شام کے بعد یہ سلسلہ کافی زرو پکڑنے لگتا ہے ،عام دن ہو یا رمضان المبارک کامہینہ مینگورہ شہر کے نشاط چوک،گلشن چوک،گرین چوک،مدین روڈ ،پلوشہ سنیماکے آس پاس اوردیگر مقامات پر تکہ فروش اورچکن فروش قابض نظر آتے ہیں جن کا نہ ریٹ کا پتہ چلتا ہے اور نہ ہی معیارکا ،بس صبح تک لوگوں کو لوٹنے میں مصروف رہتے ہیں،اس وقت اگر دیکھا جائے تو مینگورہ شہرمیں زائدمنافع خوروں کے ہاتھوں میں مہنگائی کی چھریاں،غریبوں کی گردنیں اورکھالیں نظر آئیں گی مگر یہاں پر تو دن کے اوقات میں بھی کسی نے فوڈاورمحکمہ صحت والوں کو چیکنگ کرتے نہیں دیکھا ہے تو رات کو کیا خاک دیکھیں گے،متعلقہ محکموں کی لاپرواہی اورغفلت ہی کا نتیجہ ہے کہ کاروباری لوگ بلاخوف وخطر عام لوگوں کو لوٹنے میں مصروف رہتے ہیں جو غذائی اشیاء کی آڑ میںیہاں کے عوام کو ایک طرح سے مہنگے داموں خطرناک بیماریاں فراہم کررہے ہیں،اس صورتحال کے سبب عوام میں کافی تشویش اوربے چینی پھیلی ہوئی ہے جس کے خاتمہ کیلئے صوبائی حکومت،ضلعی انتظامیہ،محکمہ فوڈاورمحکمہ صحت کو فوری طورپر حرکت میں آنا چاہئے ،اس مقصد کیلئے متعلقہ محکموں کے اہلکاروں پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دینی چاہئیں جو وقتاََ فوقتاََ بازاروں میں جاکر غذائی اجناس کے نرخ اور معیار کا معائنہ کریں اورجہاں کہیں بے اعتدالی نظر آئے وہاں پر فوری کارروائی عمل میں لائیں اس سے اگرایک طرف ناقص وغیرمعیاری اشیاء کے کاروبارمیں ملوث عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی تو دوسری طرف عوام کو مناسب نرخوں پر معیاری اشیائے خوردونوش میسرآسکیں گی ۔
Discussion about this post