تحریر: عطاءاللہ عرف (خان بابا)
ہمارے بعض نئے کالم نگار اورجرنلسٹ نما افراد جو گھر بیٹھے اپنے شیطانی دماغ پر زور ڈالتے ہوئے اپنے فرسودہ خیالات سے لوگوں کے ذہنوں میں فتنہ اور فساد برپا کرتے ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں کی کوئی سیاسی، سماجی یا معاشرتی کسی بھی قسم کی شراکت یا اعانت ہوتی ہے اور نہ معاشرے کے فلاح و بہبود میں ان کا کوئی کردار یا عمل دخل ہی ہوتا ہے۔ یہ اپنے آپ کو ’’سقراط‘‘ اور ’’افلاطون‘‘ سمجھتے ہیں۔ ان کی کوئی سیاسی بصیرت نہیں ہوتی۔ البتہ یہ موقع پرست تاک میں بیٹھے ہوتے ہیں کہ کس طرح کسی سیاسی عمل پر ’’بحث برائے بحث‘‘ چھیڑی جائے اور اپنے لغویات پر بحث کرکے لوگوں کو بھٹکا کر گمراہ کیا جائے۔ اس قسم کے لوگ آسانی سے پہچانے جاسکتے ہیں کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے؟ یہ لوگ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے خلاف ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو غیر جانبدار قرار دیتے ہوئے اپنی اخلاقی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر یہ لوگ منافق ہوتے ہیں۔ ان کا کوئی واضح مقصد یا نقظۂ نظریہ نہیں ہوتا۔ یہ لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہوئے معاشرے کے لئے ناسور بن جاتے ہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ یہ صحافی نما مخلوق بغیر کسی خاص مقصد کے مضامین لکھتے ہیں اور اس طرح اپنی جاہلانہ اور احمقانہ گفتگو سے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاسی، معاشرتی و سماجی فعالیت والے سرگرم کارکنان پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ ان خدا کے بندوں کو کون سمجھائے کہ جو یہ کرتے ہیں، کیا ان سے لوگوں کو کوئی فلاح مل جائے گی یا ان باتوں سے امن قائم ہوجائے گا؟ اگر ایسا ہے، تو یہ ان کی خام خیالی ہے کہ ایسے ویسے مضامین لکھ کر انقلاب برپا کردیں گے۔ حالانکہ یہ سب کام عملی میدان میں ہوسکتے ہیں مگر ان کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ دراصل یہ دوغلے پن کا شکار ’’دانشور نما مخلوق‘‘ ہیں۔ یہ کسی طرح جمہوریت کو سپورٹ نہیں کرتے بلکہ عمومی طرزِ حکومت کی بجائے مطلق العنان اور ڈکٹیٹرز کے ساتھ ان کا مفاد وابستہ ہوتا ہے۔
با لفرض ہم یہ تصور کرلیتے ہیں کہ ڈکٹیٹر شپ اچھی طرز حکمرانی ہے، تو ان کو چاہئے کہ یہ اپنا عقیدہ کھل کر بیان کریں اور دوسروں پر تنقید کرتے ہوئے اپنے نظریہ کے حق میں دلائل وبراہین سے کام لیں۔
چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ ان سیاسی عملیات کی وجہ سے لوگوں کے کاروبار اور کارخانے بند ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات مریضوں کی آمدروفت میں خلل پڑ جاتی ہے، لیکن اس کا ہر گز یہ مقصد نہیں ہوتا کہ اب ایسی عملیات ہی نہیں ہونی چاہئیں۔ دراصل سیاست ہی ایک قوم کا مشترکہ مقصد ہوتی ہے کہ کس طرح اس کی مدد سے قومی مسائل سے نمٹا جائے ۔وہ مسائل جو شر اور فساد کے نتیجے میں حل ہوں ،اس سے بہتر ہے کہ اس کے لئے کوئی آئینی اور قانونی راہ اپنائی جائے۔ اس طرح کوئی بھی جلسہ یا جلوس نکال کر اپنی آوازعوام اور خاص کر حکمران طبقے کو پہنچائی جائے۔ میری نظر میں سیاسی مظاہروں اور جلسے جلوسوں کیلئے کھیل کود کا میدان، بازار، چوراہے اور پارک ہی بہترین جگہیں ہوسکتی ہیں۔ ان میں دیگر امور بھی سرانجام دئیے جاسکتے ہیں جو میلہ، جلسہ اوراتوار بازار کی شکل میں یا دیگر مقاصد کیلئے بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔ جب بھی اس طرح کا کوئی پروگرام ان جگہوں میں منعقد ہونا ہوتا ہے، تو ان کے لئے پہلے سے میڈیا،اخبارات اور رسائل کے ذریعے عوام کو مطلع کیا جاتا ہے، تاکہ لوگ اس دن کی مناسبت سے اپنا لائحہ عمل تیار کرسکیں۔لیکن اس کے بر عکس یہ دانشور نما سقراطی قسم کے لوگ اپنی شیخی بھگاریں اور لوگوں کو شعوردینے کی بجائے سسٹم کوغلط قرار دے کر اپنی پہلو تہی کرتے ہوئے صرف باتوں سے اپنا مطلب نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
دوسری طرف وہ جرنلسٹ صاحبان، ’’دانشوران‘‘ اور ’’کالم نگاران‘‘ ہیں جو قوم کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ ان کو مسائل کا احساس، ادراک اور شعور حاصل ہوتا ہے۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر خبرکو بعدازاں تحقیق کے بعد نشر کرتے ہیں، عوامی اور قومی مسائل سے آشنا ہوتے ہیں اور سیاسی حرکات اور عملی منظر نامے پر ان کی نظر ہوتی ہے ۔
صحیح اور درست جرنلسٹ یادانشور وہ ہوتا ہے جو باقاعدہ طور پر کسی مستند ادارے سے جرنلزم کی ڈگری لیتا ہے اور پھر وہ کسی اچھے نشریاتی ادارے کے سا تھ وابستہ ہوجاتا ہے۔ یہ اپنے علم اور معلومات میں اضافے کیلئے ہر وقت کوشاں رہتا ہے اور جو فرائض منصبی اسے حوالہ ہوجاتے ہیں، وہ اسی دائرہ کار میں رہ کر احساس ذمہ داری کے ساتھ انسانیت،ملت، ملک و قوم کی ترقی کیلئے اپنی تجاویز کو بغیر کسی دقت کے پیش کر دیتا ہے ۔
Discussion about this post