چترال (زمونگ سوات آن لائن نیوز)چترال کے علاقے ارسون میں مسلسل بارشوں کے باعث آنے والے سیلابی ریلوں میں10نمازیوں، 8سیکیورٹی اہلکاروں،خواتین اور بچوں سمیت 31افراد بہہ کر جاں بحق ہو گئے جبکہ درجنوں مکانات، مسجد، سکیورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ اور دیگر املاک تباہ ہوگئی ہیں جبکہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی کا نفاذ کردیا گیا ہے،پاک فوج، چترال اسکاٹس، بارڈر پولیس اور چترال پولیس امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور اب تک 8افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔گزشتہ شب جنوبی چترال کے علاقے ارسون میں دو گھنٹے تک جاری رہنے والی تیز بارش کے بعد آنے والے سیلابی ریلوں نے تباہی مچادی، ایک مسجد، سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ سمیت متعدد مکانات کو بھی بہا کر لے گیا۔ڈپٹی کمشنر چترال اسامہ وڑائچ نے بتایاہے کہ سیلابی ریلوں میں کم از کم 31افراد کے لاپتہ ہوگئے ہیں جن میں سے آٹھ افراد کی لاشیں افغانستان کے علاقے سے ملی ہیں۔ اس سے قبل انھوں سے سیلابی ریلوں میں کم از کم 17افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔اسامہ وڑائچ نے بتایا کہ متاثرہ علاقے میں امدادی کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے اور متاثرین کو محفوظ مقامات پر پہنچانے اور اشیائے خوردونوش فراہم کی جا رہی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ علاقے میں میڈیکل کیمپ بھی لگایا جائے گا جبکہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی حالات نافذ کر دیئے گئے ہیں جبکہ متاثرہ علاقے دور افتادہ ہونے کی وجہ سے امدادی کاموں میں مشکلات بھی درپیش ہیں تاہم مقامی انتظامیہ کی جانب سے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق سیلابی ریلے سے سکیورٹی فورسز کی ایک چیک پوسٹ بھی بہہ گئی ہے جس میں موجود آٹھ اہلکار لا پتہ ہیں اور چار زخمی ہیں۔سماجی کارکن محراب الدین نے بتایا کہ سیلاب کے بعد آنے والے ریلے سے 50سے 70مکانات پانی میں بہہ گئے ہیں۔ علاقے میں مواصلات کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے اور کئی علاقوں کا راستہ منقطع ہونے کی وجہ سے امدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔پولیس اہلکار کے مطابق گاؤں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کی ہے جبکہ سیلاب میں بہہ جانے والے افراد کی تلاش جاری ہے۔ دروش کے علاقے میں تھانہ دروش کے پولیس اہلکار امیر اللہ نے بتایا کہ ارسون گاؤں میں سیلابی ریلا مسجد میں داخل ہونے سے دس نمازی بھی سیلاب میں بہہ گئے ہیں جبکہ 20نمازی زخمی ہوئے ہیں۔دروش کے علاقے میں ایک مکان سیلابی ریلے میں بہہ جانے سے دو خواتین سمیت پانچ افراد تا حال لاپتہ ہے۔چترال کے ضلعی ناظم مغفرت شاہ نے بتایا کہ سیلاب رات دس بجے کے قریب آیا ، سیلابی ریلے میں کم از کم 31 افراد بہہ کر جاں بحق ہوئے ہیں جن میں سے 10افراد ایک مسجد میں عبادت میں مشغول تھے۔ پاک فوج، چترال اسکاٹس، بارڈر پولیس اور چترال پولیس امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور اب تک 8افراد کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سیلابی ریلے میں بہہ کر جاں بحق ہونے والوں کی شناخت ہو چکی ہے تاہم مزید ہلاکتوں کا بھی خدشہ ہے۔انھوں نے بتایا کہ لوگ اپنے مدد اپ کے تحت امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ بارشوں کی وجہ سے راستے بند ہو گئے ہیں۔ڈی پی او چترال آصف اقبال کا کہنا ہے کہ جنوبی چترال میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں، سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے 31افراد لاپتہ ہیں، جن میں 8 سیکیورٹی اہلکار، ایک خاتون اور4بچے بھی شامل ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں شروع کردی گئی ہیں۔دوسری جانب گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کوامدادی کارروائیاں تیزکرنے کی ہدایت کر دی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ قدرتی آفت سے متاثرہ اور لاپتہ افراد کی تلاش ہرصورت ممکن بنائی جائے۔چترال کا یہ دور افتادہ علاقہ ہے اور رات کے وقت آنے والے سیلاب کے امدادی کاروائیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا کہ مسلسل بارش کے باعث ندی نالوں میں طغیانی آ گئی ہے۔ان دونوں گرمی کے موسم میں پہاڑوں کی برف پگھلنے سے بھی ندی نالوں میں پانی کا بہا بڑھ جاتا ہے۔مسلسل بارش اور سیلاب کے باعث انتظامیہ کی جانب سے ریڈ الرٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ سال بھی چترال میں بارشوں کے بعد سیلاب آیا تھا۔ جس میں کئی افراد ہلاک ہوئے تھے اور املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ سیلاب کی وجہ سے کئی سڑکیں اور پل پانی میں بہہ گئے تھے۔
Discussion about this post