تحریر :عطاء اللہ خان بابا
میں نام نہاد نظریات، روشن خیالی، آزاد خیالی، وطن پرستی، حب الوطنی، انتہا پسندی، شدت پسندی، رجعت پسندی، ڈکٹیٹر شپ، تھیا کریسی (مذہبی پیشوائیت)، مذہبی آزاد خیالی، سیکولرازم، جمہوریت، قدامت پرستی، قوم پرستی، فرقہ پرستی، اشتراکیت ، سرمایہ داری، جاگیر داری، زمینداری، صنعت گری، جدیدیت اور سائنس پرستی سے روگردانی اختیار کرتا ہوں کہ ان کی وجہ سے روئے زمین پر ایک طرح سے ظلم کا بازار گرم ہے اور ایک کہرام سا بپا ہے۔ دنیا سے انسان اور انسانیت دونوں اشیا ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میرا مذکورہ نظریات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
میرا یقین مستحکم ہو کر اب شک و گمان کی حد سے آگے جا چکا ہے۔ میں اب ان نام نہاد نظریات کی بھول بھلیوں پر یقین نہیں رکھتا۔ مجھے انسان اور احترام آدمیت چاہئیں۔ میرے راستے میں اب جھوٹے تعصب حائل نہیں ہوسکتے۔ مجھے پوری دنیا میں محبت چاہیے۔ مجھے امن وسلامتی چاہیے۔ مجھے انسان چاہیے۔ اس کے ساتھ مجھے حیوانوں پر بھی ترس چاہیے۔ مجھے درخت اور سبزہ چاہئیں۔ مجھے پاک ماحول اور پاک و صاف پانی چاہئیں۔ مجھے دو وقت کی روٹی اور چھت چاہئیں۔ مجھے روزگار چاہیے۔ مجھے صحت اور تعلیم چاہئیں۔ مجھے محبت، اخوت، رواداری اور عدل و انصاف چاہئیں۔ مجھے تحمل اور برداشت چاہئیں۔ مجھے آرام اور سکون چاہئیں۔ مجھے عالمی امن اور بھائی چارہ چاہئیں۔ القصہ مجھے انسانیت کے سوا کچھ نہیں چاہئے۔ مجھے نفرت ہے ظلم، بے انصافی اور بد اَمنی سے۔ مجھے نفرت ہے گندگی، بدبو اور تعفن سے۔ مجھے گھن آتی ہے خراب ذہنیت سے۔ مجھے نفرت ہے لڑائی اور جھگڑوں سے۔ مجھے نفرت ہے استحصال زدہ اور تعصب پر مبنی سیاست سے،خیانت گری اور دلالی سے۔ مجھے نفرت ہے منافقت آمیز مصلحت سے۔ مجھے نفرت ہے نسلی امتیاز کے جھگڑوں سے۔ مجھے نفرت ہے سرمایہ داروں کی حکومت سے۔ مجھے نفرت ہے اس جمہوریت سے جس میں اہلِ علم اور جاہل دونوں کو ایک لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔مجھے نفرت ہے ایسی جمہوریت سے جس میں سرمایہ دار ہی جمہوری آمر کے طور بادشاہی کرتا ہے اور اپنے موروثی جانشین چھوڑ کر کروڑوں روپیوں سے الیکشن لڑتا ہے اور جس میں غریب مزدور سے الیکشن لڑنے کا حق چھینا جا چکا ہے۔ مجھے نفرت ہے سیکولرازم کے اس نظریہ سے جو مادے کو اصل حقیقت مانتا ہو، نہ کہ کسی ایسے خدا کو جو کائنات کا خالق و مالک ہو اور جو رب کائنات کو ایسی نظر سے دیکھتا ہو جو مخلوق کاہادی ہو اور نہ مولا، جو کائنات کو خود کار مشین کے طور پر مانتا ہو کہ بس خود بخود یہ نظام چل رہا ہے اور خدا تعالی اوپر آسمانوں میں اس سے لاتعلق بیٹھا ہے۔ مجھے نفرت ہے ایسے نظریہ سے جس کا مطمع نظر مذہب کا زوال ہو اور وہ کون سا پیمانہ ہے کہ سیکولر ازم خود تو کلیت پسند بن جائے اور خدا اور اخلاقیات کو انسانی دائرہ کار سے بے دخل کرکے اپنے آپ کو واحد سچائی قرار دے۔ مجھے نفرت ہے اس سائنسی ترقی سے بھی جو انسانوں کو ختم کرنے کا سامان ہو اور جس نے انسان کو سادہ ماحول سے نکال کر مشینی دنیا میں الجھا دیا ہو۔ مجھے اس ترقی سے بھی نفرت ہے جو احترامِ آدمیت کھو دے اور جو جنس کے طور پر انسان کو سمجھے اور پرکھے اور جس جدیدیت اور ٹیکنالوجی نے انسان کوشرفِ انسانیت سے محروم کردیا ہواور جہاں جدیدیت افسر شاہی اور عقلیت پسندی کا آہنی پنجرہ ہو۔مجھے فلسفہ کی موشگافیوں سے بھی نفرت ہے جو انسان سے اس کی انسانیت چھین کر اسے صرف عقلی حیوان سمجھے اور اس کائنات میں اسے محض ایک حقیر مخلوق سمجھے۔ مجھے ایسی فرقہ پرستی اور مذہب پرستی سے نفرت ہے جو اس زعم میں مبتلا ہو کہ ہم ہی نجات دہندہ ہیں اور وہی فرقہ جو کسی کے گھر کی لونڈی بن جائے اور جس پر صرف ایک طبقہ ہی ٹھیکیداری کرے اور جو انسانوں میں امتیاز ات روا رکھنے کا درس دے۔ مجھے ایسی مذہبی پیشوائیت سے نفرت ہے کہ جس میں پیشوا اپنے آپ کو نائب الٰہی تصور کرکے دوسرے عام انسانوں پر حکومت کرنے کی دعویداری کرے اور اپنے ہر حکم کو ’’من جانب اللہ‘‘ کا باور کراتا پھرے۔ مجھے نفرت ہے موروثی آمریت اور بادشاہی سے جس میں ایک فرد انسانوں کے فیصلے کرتا اور عقل کل بنتا پھرے اور اکثریت اور اہل علم کے مشورے کے بجائے اپنا من مانا فیصلہ بطور فرمان جاری کرے۔ مجھے نفرت ہے اس دولت اور غربت سے جو مجھے وحشی بنا دے اور جو مجھے پیٹ کا پابند کرے۔ مجھے نفرت ہے اس حب الوطنی سے جو مجھے دنیا کے دوسرے انسانوں سے بیزار کردے۔ مجھے نفرت ہے اس وطن پرستی سے جو مجھ میں گھمنڈ اور غرور پیدا کرے۔ مجھے نفرت ہے قوم پرستی سے جو مجھ میں احساس تفاخر پیدا کرکے نسلی امتیاز بیدار کرے اور دنیا کے اور انسانوں سے نفرت کرنا سیکھا دے۔ مجھے نفرت ہے سرمایہ داری سے جو دنیا کی دولت پر صرف اپنا حق جتائے اور مزدوروں کا استحصال کرے۔ مجھے نفرت ہے جاگیر داری سے جو زمین کو اپنی ملکیت تصور کرے۔ مجھے نفرت ہے زمینداری سے جو فصل اور خوراک کو ذخیرہ کرکے ان کو دیگر انسانوں سے چھین لے۔ مجھے نفرت ہے اشتراکیت سے جو خون کی آبیاری کرے اور جو غریب کی حکمرانی کا تصور پیدا کرکے سرمایہ دار اور معتدل طبقات کو نیست و نابود کر دے۔ مجھے نفرت ہے فرقہ پرستی سے جو دیگر فرقوں کو کمتر خیال کرکے اس کا خون بہائے اور نفرت کرنا سکھائے۔ مجھے نفرت ہے اس سائنس پرستی سے جو انسان سے اس کا عقیدہ چھین لے اور اسے محض ایک حیوان تصور کرے۔ مجھے نفرت ہے ہر اس نظریہ سے جو انسان سے اس کی انسانیت چھین کر اس کو مجبور و مقہور بنائے رکھے۔
قارئین کرام! خدا کیلئے پہلے ہمیں ہر نظریہ اور عقیدہ سے بالا تر ہوکر انسان بننا ہوگا۔ ہمارا عقیدہ انسانیت اور انسانیت پرستی ہونا چاہیے۔ ہمیں ہر عقیدہ اور نظریات سے بالاتر ہوکر انسان ہونے کے ناطے انسانیت کی بقا کا حل سوچنا چاہیے اور نظریہ اور عقیدہ کی بنیاد پر انسان اور خوبصورت دنیا کی بدصورتی سے ہمیں روگردانی اختیار کرنا ہوگی، ہمیں ہر حال میں انسان اور احترام آدمیت سیکھنا ہوگا۔
ہمیں فطرتِ انسانی پر جینا اور مرنا ہوگا اور ہمیں ایک دوسرے کے عقائد اور نظریات (محولہ بالا نظریات علاوہ)کا احترام کرنا ہوگا۔ ہمارا عقیدہ بہر حال ہمارا اپنا ہے لیکن وہ عقیدہ اور نظریہ اگر ہم انسان اور عالمی امن کیلئے وقف کریں، تو ہی ہم انسان کہنے کے لائق ہوسکتے ہیں۔ ورنہ ہماری مجرمانہ خاموشی ہمیں اس دلدل میں لے جانی والی ہے جسے ’’قیامت صغریٰ‘‘ کہتے ہیں اور جس کا مشاہدہ انبیاو رسل نے اپنی وجدانی کیفیات سے کیا ہے۔ ہمیں ہر نظریہ اور عقیدہ سے بالاتر ہوکر صرف انصاف، امن، انسانیت اور احترامِ آدمیت کا درس دینا چاہئے ۔
اس کے بعد نظریوں اور عقیدوں کی باری آتی ہے۔ اس طرح انسان اپنے گم گشتہ اعلیٰ و ارفع مقام حاصل کرسکتا ہے اور یہ خوبصورت دنیا جنت نظیر بن سکتی ہے۔
کوئی نظریہ بذات خود اچھا ہے نہ برا بلکہ اس کی مثبت و منفی تفہیم ہی اس کو اچھا اور برا بناتی ہے۔ ہم ایک انسان کی حیثیت سے اپنے نظریات کو اپنی اَنا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے اس کے دفاع کیلئے میدان میں کود پڑتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ آیا اس سے اس کے خالق یا آلہ کار کا کیا مقصد ہوتا ہے اور اس طرح نظریات و عقائد کو ایمان کا حصہ بنا دیتے ہوئے کسی بھی حد تک جا تے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Discussion about this post