نوٹ: ﺩﮬﻴﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﮍھيں گے تو ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ضرور ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ۔۔۔
شديد بارش تھي،آسمان سے بارش کے موٹے موٹے قطرے گررہے تھے،لوگوں کي چيخ وپکار سے پہاڑ گونج رہے تھے،،ہرطرف پاني ہي پاني گويا دريا بپھرگيا ہو۔۔اسي اثناء ميں دور سے آدم زادےبلاخوف و خطرسيلابي ريلے کي جانب بڑھے رہے تھے،گاوں خالي ہو چکا تھا مگر يہ بندہ خدا پيچھے جانے کي بجائے آفت زدہ ديہات کي طرف جارہے تھے،،موت کي جانب بڑھتے يہ کوئي خودکشی کرنے جارہے تھے اور نہ ہي ريسکيوکي کوئي ٹيم تھی بلکہ وہ تو رپورٹراور کيمرہ مين تھے جنکے قدم بڑھتے ہي جارہے تھے صرف ايک ہي ڈگر کي جانب ايک ہي راستے پر، جو جاتا تھا خبر کي طرف، ذہن ميں گونج رہي تھي بس يہي آوازسب سے پہلے،سب سے آگے خبردينے کي،، جيو اور جيتے رہو کي پرواہ نہ کرتے ہوئے جان ہتھيلي پر رکھ کرتلاش کرني ہے توصرف خبر،،ان دونوں کي ہمت اور فرض شناسي اپني جگہ مگر سروں پر لٹکتي تلوار تھي ايکسکلوزيو فوٹيج دينا کچھ نيا کچھ خاص نکال کر خبربريک کرنا۔۔اوريہي پياس ليکروہ دونوں سيلاب کے قريب پہنچے ۔۔ زندہ لوٹ آئے تو خبر اگر نہ آئے تو بھي خبر ۔۔۔۔۔ يہ ہے ميڈيا والوں کي زندگي!!
دن،رات،سردي،گرمي،دھوپ بارش ہو يا کوئي بھي مشکل کي گڑھي، قدرتي آفات،دہشت گردي،،سياسي جلسے ہوں يا دنگے فساد، ہر لمحہ باخبر رکھنے کے لئے پيش پيش رہتا ہے بندہ ناچيز،، جسکي بظاہرشان وشوکت سے تو سب ہوتے ہيں متاثر،،چمک دمک اتني کہ چھوٹے بڑےسب گرويدہ،،مگر درحقيقت اسکي زندگي کھوکھلے درخت کی مانند ہوتي ہے،نہ چھٹي،نہ دوست احباب راضی،اورنجی زندگی توگویا کسی بیوفا پرندے کی طرح،،باقی تو بس صرف خبرسےعمر بھر کا ساتھ،،کيونکہ جب تک خبر رہتي اور بکتی ہے تو رپورٹرکو بھی زندہ تصورکياجاتا ہے،، رپورٹر کیلئے ہر نيا دن ايک نيا موڑ ايک چيلنج۔۔ خبرکے لئےتو زندگي داو پر لگائي ہوئي ہے اور بعض اوقات خبر کي ہي وجہ سے دشمنياں مول ليني پڑتي ہيں جس ميں کئ حضرات تو اپني قيمتيں جانيں بھي گنواکرخودخبربن جاتے ہيں،،شاعرکے بقول ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کوبھی لے ڈوبيں گے کچھ ایسی ہی صورت حال رپورٹرکے ساتھ رہنے والےکيمرہ مين کی بھي ہوتی ھے،کام بھي نہايت کٹھن اورايک آنکھ سے کچھ نيا اور سب سے الگ بنا کرلانا جوکہ بظاہر نہايت سہل لگتا ہے مگر ہے نہيں ۔۔۔
صحافي ہي وہ مخلوق جس پر سب سے زيادہ طنزوتنقيد کے تير برسائے جاتے ہيں ليکن ان تمام ترآزمائشوں کے باوجود مياں صحافي ہمت نہيں ہارتا بلکہ بڑھتاچلاجاتا ہے۔۔ کيونکہ خبر ہي اسي کي زندگي ہے اور رگوں ميں دوڑتا ہوا خون،،ليکن صد افسوس کے ساتھ ان قربانيوں کے باوجودان کو سراہنے والے آٹے ميں نمک کے برابرہوتےہيں۔۔ معاشرے کي آنکھيں اورکان کہلائے جانے والے کبھي کبھارحالات کي ستم ظريفي کے باعث خود اندھے،بہرے، اور مفلوج ہوجاتے ہيں۔۔ رپورٹر اورکيمرہ مين کو کيرئير کي شروعات سے ہي نشيب و فراز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔اور بعض اوقات توميڈيا کے کچھ معصوم بھائي اپنے ہي آفس کي سياست کي اورغيظ وغضب کي بھينٹ ايسے چڑھ جاتے ہيں کہ بے چارے دلبرداشتہ ہوکراس شعبے کوہي خيرباد کہہ ديتے ہيں۔۔
خاکسار نے اس موضوع پرقلم کشائي کي جسارت اس لئے کي کہ ان مشکلات کے علاوہ بھي صحافي حضرات ان گنت مسائل اورچيلينجزسے دوچارہيں کیونکہ یہ دکھڑاکسي ايک صحافي کا نہيں بلکہ تمام ميڈيا حضرات کي حالت زار بياں کي جارہي ہے جن کو ہم معاشرے ميں سياہ سفيد کا مالک تصورکرتے ہيں،،انکا ٹشن ايسا کہ ہر کوئي ان سے ڈرے ليکن درحقيقت انتہائي مظلوم اور بے ضررانسان جو خود کي آہ کو دبائے ہوا ہے۔۔ انکي زندگي تلخ مگر فرض شناسي ايسي کہ يہ ہميشہ دوسروں کے حق کے لئے آواز اٹھائے ليکن انکے بارے ميں کوئي نہيں جو انکي سنے اورانکے دکھوں کو لفظوں ميں پيروئے۔۔۔۔۔۔
Discussion about this post