سوات ( زمونگ سوات ڈاٹ کام ) سوات کی تحصیل مٹہ کے گاؤں اشاڑے میں ظلم کی اور داستان منظر عام پر آگئی ، ظالم سسر کا بہو پر چھریوں سے پے درپے وار اسپتال انتظامیہ نے لہو لہان خاتو ن کو معمولی زخمی قرار دیکر اسپتال سے فارغ کردیا جبکہ ملزم با اثر ہونے کی وجہ سے پولیس میں صرف روزنامچہ میں رپورٹ درج کرتے ہوئے باقاعدہ ایف آئی آر نہیں کاٹی ، واقعے کی خبر پورے علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ، اطلاع ملتی ہی سماجی کارکن تبسم عدنان مٹہ پہنچ کر زخمی خاتون کو اپنے گھر سیدو شریف پہنچایا جہاں وہ زیر علاج ہیں ،مجروحہ نصیب جان اپنی کہانی کچھ یوں بیان کرتی ہے ہیں کہ ’’ہم اپنے گاؤں مٹہ سے لوند خوڑ ضلع مردان پانچ مہینے کیلئے گئے تھے ، وہاں متواتر پانچ مہینے میرے سسر نے میرے ساتھ ذیادتی کی ہے ، وہ رشتے میں میرے چچا بھی ہیں ، مجروحہ آگے کہتے ہیں کہ جیسے ہی ہم واپس گاؤں آئے ، میں نے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار نہیں کیا اور نہ میرے سسر نے میرے ساتھ ذیادتی کا سلسلہ ہی روکا ، وہ مجھے وقتاً فو قتاًمارتے اور دھمکاتے رہے ، مجھے جس دن چھریوں سے مارا گیا ، اس رات بھی دو تین دفعہ میرے سسر نے مجھے تنگ کیا ، صبح سویرے بھی مجھ سے زیادتی کرنے کی کوشش کی ، تنگ آکر میں نے شور مچانا شروع کیا تاکہ گھر کے دوسرے لوگوں کو پتا چلے ، اس وجہ سے میرے سسر نے مجھے مار ا اور جب میں پھر بھی چپ نہ ہوئی تو اس نے میری ساس اور اس کے بھائی کی مدد سے مجھے کمرے میں بند کیا اور مجھ پر چھریوں کے وار کئے ، مجروحہ نصیب جان کا اپنے شوہر سے ایک بیٹا بھی تھا جسے اس دنیا میں آنے سے پہلے پہلے ان کا سسر بے پنا تشدد کرکے مارچکا ہے ، مجروحہ کی ماں کے بقول مجروحہ کے جسم پر چھریوں کے 51چھوٹے بڑے نشان ہیں ، واضح رہے کہ مجروحہ مسماۃ (ن) کا خاوند سعودیہ میں محنت مزدوری کرتا ہے ، مجروحہ کے بقول گزشتہ پانچ ماہ سے انہیں اپنے خاوند نے محض اس لئے بات کرنے نہیں دیا گیا ہے کہ کہیں بیٹے کو اپنے باپ کی اصلیت کا پتا نہ چلے ، سربراہ خویندو جرگہ اور سماجی کارکن تبسم عدنان اس اندو ہناک واقع کے ھوالے سے کہتی ہے کہ مجروحہ اپنے سسر جو اس کے چچا بھی ہیں کے ہاتھوں مسلسل پانچ ماہ تک ذیادتی کا شکار ہوئی ہیں جب مجروحہ نے اپنی ساس اور دیگر قریبی رشتہ داروں کو سسر کی طرف سے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا تذکرہ کیا تو مجروحہ کو اول اول تو چپ رہنے کا کہا گیا اوربعد میں اسے ایک کمرے میں بند کرکے چھریوں کے پے درپے وار سے زخمی کیا گیا ، سوات میں خواتین کے حوالے سے ایک معمول کا واقعہ ہے ، اس کے جسم پر چھریوں کے زخم ہیں مگر اس کے باوجود اسپتال میں اس کی صحیح طریقے سے رپورٹ در ج نہیں کی گئی ، جب اسے تحصیل مٹہ اسپتال مٹہ بھیجا گیا تو اس کی مرہم پٹی کی گئی اور واپس بھیج دیا گیا ، تبسم عدنان کے بقول ، اب یہاں پولیس کا کردار بھی مشکوک ہے ، ان کا کہنا ہے کہ مجروحہ کو معمولی سے زخم آئے ہیں اور یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے جب میں کہتی ہوں کہ یہ اقدام قتل ہے مگر رپورٹ میں ساد ہ طور پر ایک سو سات کا دفعہ لگایا گیا ہے جو بسا اوقات دو بندوں کے درمیان تو تو میں میں ہونے کے بعد لگایا جا تا ہے ، یہاں قانون نافذ کرنیوالے اداروں سے ہماری درخواست ہے کہ اس حوالے سے مجروحہ کی بھر پور مدد کی جائے محکمہ پولسی سے بھی یہی کہنا چاہوں گا کہ اس حوالے سے دفعہ 107لگانا کسی ملزم کی مدد کرنے کے مترادف ہے ،باون زخم اسے لگتے ہیں اور سب سے بڑا زخم پیٹ پر لگا ہے جس کی وجہ سے اس کی انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں ، اب اس پر پٹی لگی ہے ، میں اسے ظلم وحشت اور بربریت کی انتہا مانتی ہوں اس سے تو بہتر تھا کہ اس کے گلے میں پھندہ ڈال کر اسے ماردیتے ، مجروحہ کی ماں جو شرشخیلہ کی رہنے والی ہے اس حوالہ سے کہتے ہیں کہ جب میری بیٹی نے مجھے اس ظلم کے حوالے سے بتایا میرے تو جیسے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی ، میری بیٹی نے گھر کی عورتوں اور اپنی ساس کو اس حوالے سے خبردی ہے کہ میرے ساتھ سسر کی طرف ایسا ظلم روا رکھا جارہاہے ، مگر ساس کیسا ساتھ گھر کے تمام افراد کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ، اس کے بعد میری بیٹی کے ساس سسر نے مشورہ کیا کہ اب بہو کو ٹھانے لگانا ہے کیونکہ اب یہ ہمارے شرم کا باعث بن رہی ہے ، چھری میر ی بیٹی کی ساس نے اپنے خاوند یعنی میری بیٹی کے سسر کو دی ، اس عمل میں میری بیٹی کا سس اس کی ساس اور ساس کا بھائی شامل تھے ، میں جب اس موقع پر پہنچی تو مجھے بھی ایک کمرے میں بند کیا گیا ، ارادہ یہ تھا کہ بیٹی کے بعد مجھے مارا جائے گا ، میں نے اپنی بیٹی کی چیخیں سنی ہیں میری بیٹی اسی طرح زخمی حالت میں تین گھنٹے پڑی ہی اس کے کپڑے اتارے گئے تھے ، عوام آئے ہیں ، انہوں نے اسے کپڑے پہنچائے ہیں چار پائی میں ڈالا ہے ، تین ساڑے تین گھنٹے بعد ہمیں ہماری بیٹی زخمی حالت میں ملی ہے پولیس کا کہنا تھا کہ زخمی ہسپتال لے جایا جائے ، ہم ابھی چھاپہ نہیں ماریں گے ، پھر اس کے بعد جب پولیس چوکی گئی تو وہاں مجھے رپورٹ کرنے کے بعد گاڑی میں تیل ڈالوانے کیلئے دو ہزار روپے لئے گئے ،اس کے بعد میرے ساتھ پولیس جائے وقوعہ پر گئی ، شا ہ زرین سکنہ قمبر مجروحہ کے ماموں ہیں ، ان کے بقول جیسے ہی ہم مجروحہ کو ہسپتال لے گئے ، اس کے بعد ہمیں باہر رہنے کا حکم دیا گیا کسی نے ہم سے پوچھا تک نہیں کہ اس معصوم لڑکی کے جسم میں چھریوں کے اتنے وار کیسے ہوئے ہیں یا یہ بچی زخمی کہاں کی ہے ؟چار دن تک بچی ہسپتال میں پڑی رہیں ، اس کے بعد دوائیاں لکھ کر ہمیں اپنے مریض کو گھر لے جانے کا کہا گیا ، ہسپتال میں پولیس نے بھی کچھ نہیں پوچھا کہ بچی کو اتنا زخم کیسے آئے ہیں ، بھئی ہم کسی اور ملک کے باسی نہیں ، اسی ملک کے رہائشی ہیں ، ہمیں انصاف چاہئے ، متہ تھانہ کے ایس ایچ او محمد اانور اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ابھی کل ہی مجھے اس ھوالے سے پتا چلا ہے میں ایک پولیس اہلکار کو اشاڑے چوکی بھیج چکا ہوں ، میڈ یکل رپورٹ لانے کے بعد ملزمان کے خلاف کارروائی ہوگی ۔
بشکریہ: روزنامہ آزادی
Discussion about this post