تحریر: اسلام گل آفریدی
پہلے اپنے زندگی کی لئے فکر مند تھا مگراب اپنے بیماربچے کے مستقبل کے لئے کافی پریشان ہویہ کہناہے پشتوموسیقی کے نامور فنکار سردار یوسفزئی کا۔ کافی کوشش کے بعد آخرکار ہم اس میں کامیاب ہو گئے کہ وہ اپنے بیمار بچے کے علاج میں درپش مسائل کے بارے میں بات کرسکے۔
سردار یو سفزئی کا کہناکہ اُن کے چھ بچے ہیں ،جس میں تیسرے نمبر پر زلان ا حمد جو پانچویں جما عت میں پڑھتا ہے وہ ایسے بیماری میں مبتلا بے جس کے علاج پر 70 سے 80لاکھ خرچہ آئیگا جو میرے بس کی بات نہیں ہے۔
” اپنے بچے کے علاج کے لئے میں نے وقت سے پہلے نوکری ختم کردی تاکہ نقد پیسے مل جائے۔ لیکن وہ پیسے بھی ختم ہوئے اور جو تھوڑی بہت جائیداد تھا اُس کو بھی بھیج دیا۔ لیکن بیٹا اُسطرح بیمار ہے اور اس کی بیماری میں کوئی خاص فرق نہیں آ یا جونہ صرف میرے لئے بلکہ پوری خاندان والوں کے کافی پریشان کن بات ہے”۔
سردار یوسفزئی نے بتایا کہ زلان کے پاوٗں کے اُوپروالے حصے میں پٹی یا مسل کے اوپر دانہ ہے جس کی وجہ سے اُس کی ایک پاوٗں کی لمبائی دو انچ زیادہ ہوگیاہے ۔
” ہر وقت اُس کے پاوٗ ں میں درد ہوتا جس کی وجہ پورا گھر پریشان رہتاہے ۔ چلنے پھرنے میں کافی مشکلات محسوس کرتے ہیں۔ کافی ڈاکٹروں سے علاج کروایا مگرکوئی فائد ہ نہیں ہو ا۔ اب ساری ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ اس کا آپریشن پاکستان میں ممکن نہیں کیونکہ یہ اندیشہ موجود ہے کہ اگراس کا اپریشن کیا جائے تو اللہ نہ کریں یہ ایک پاوٗں کا م کرنا چھوڑ دیں۔ اس کا علاج بیرون ملک موجود ہے جس پر ستر سے اسی لاکھ تک خرچہ آئے گا”۔
زلان احمد کا کہنا تھا کہ وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل کودمیں حصہ نہیں لے سکتا کیونکہ وہ پوری پاوٗں میں درد محسوس کرتا ہے اور صحیح طریقے سے چل بھی نہیں سکتا۔
” بس اور کچھ نہیں چاہتا ، صرف یہ خواہش ہے کہ میرا علاج ہو سکے اور میں اپنا تعلیم مکمل کرسکو”
ایک سوال کے جواب میں سردار یوسفزئی نے کہا کہ اُ س نے چھ سال تک اسلئے اپنے بیٹے کی بیماری کو چھپائے رکھا کہ پشتون معاشرے میں لوگ یہ باتیں کہہ ینگے کہ یہ تو اپنے فن کو استعمال کرکے بیک مانگتاہے، اس کے ساتھ اور کیاکیا باتیں بناتے ہونگے۔
“لوگ جو بھی کچھ کہہ میں اُس کے بارے میں کچھ نہیں کہتا ، میرے بیٹے کے علاج میں حکومت کچھ کریں کیونکہ اُس کی زندگی کا سوال ہے ۔ پہلے میوزک پروگرامات ہوتے تھیں جس سے کچھ آمدنی آجاتا تھا مگرامن کے خراب حالت کی وجہ سے کئی سالوں سے تقربیا وہ سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ اب تو میرے مالی حالت اتنے خراب ہے کہ بچوں کی تعلیمی اخراجات بھی پورا نہیں کرسکتا”۔
سردار یوسفزئی نے مزید بتایا کہ اب تک کسی بھی حکومتی اہلکا ر یامحکمہ کلچر نے رابط نہیں کیاجو کہ ایک افسوسناک بات ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ
پہلے سے موسیقی کی وجہ سے اُس کی زندگی کو خطرہ تھا اور اب بچے کا مناسب علاج نہ ہونے سے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔
زلان احمدکے علاج کے حوالے سے جب حکومتی اقدمات جاننے کی کوشش کی تو کلچرڈائریکٹریٹ سے کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوسکا۔ سردار یوسفزئی نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ دوسروں کو خوش کرنے میں گزارا ہے لیکن اب وہ ایک ایسے غم نے اپنے حصار میں گھیر رکھا ہے جس سے نکلنا اکیلے اس کی بس کی بات نہیں ہے،۔ اب ہم سب کا اور خاص طور پر مخیر حضرات کا یہ بحیثیت مسلامن یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اس مشکل گھڑی میں اس کا مدد کرے اور اس کے بیٹے کا علاج جلد سے جلد کرئیں تاکہ کسی کے سہارے نہ بلکہ اپنے سہارے سے زنگی گزار سکیں۔
Discussion about this post