کہانی لکھتے وقت ہندوستانی سینما کی سوشل فلموں کوسامنے رکھاگیاہے،شاید یہی وجہ ہے اس فلم کی کہانی پربولی ووڈ غالب ہے، پھربھی فلم کی پیشکش کاانداز اچھا ہونے کی وجہ سے فلم دیکھی جاسکتی ہے۔فلم کے کرداروں میں سب سے مضبوط کردار اوم پوری کا ہے ،جو وکیل بنے ہیں،اگروہ اس فلم کاحصہ نہ ہوتے،توشاید کہانی کے جذباتی مناظر کو سنبھالنا زیادہ مشکل ہوتا، فلم میںان کی جاندار اداکاری شائقین کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھتی ہے۔ فلم کادوسرا اہم کردار فہد مصطفی نے اداکیاہے،وہ ایک شوقیہ اداکاربنے ہیں۔
ان کی اداکاری متوازن ہے،لیکن اگر وہ یونہی اداکاری کرتے رہے،توان پر مخصوص اداکار ہونے کی چھاپ لگ جائے گی ،جس طرح پڑوسی ملک میں شاہ رخ ایک خاص قسم کے کرداروں میں پھنس گئے ہیں۔فلم کاتیسرامرکزی کردار مہوش حیات نے اداکیاہے،جوایک ٹی وی چینل کی رپورٹر بنی ہیں۔
اس کردار کوجتنا غیر حقیقی انداز میں لکھاگیا،اس سے بھی زیادہ برے طریقے یہ مہوش حیات نے اداکیا۔ انگریزی میں اس کو”اُوورایکٹنگ“بھی کہا جاتا ہے، بری اداکار ی پر اگر اس فلم کوکوئی اعزاز ملا،تومہوش حیات اس کی مستحق ہوں گی۔
اداکاری کے لیے صرف خوبصورتی کافی نہیں ہوتی،یہ بات ان کو سمجھ لینی چاہیے۔فلم کاایک اورکردار سلیم معراج نے بھی کیا ہے،جنہوں نے مختصر کردارمیں بھی اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا ہے۔فلم کے دیگر ذیلی کرداروں میں علی خان،عرفان موتی والا،صبورعلی،سیف حسن،نیراعجاز،ریحان شیخ ،طلعت حسین، نورالحسن، لبنی اسلم، راشدخواجہ، خالد احمد، احسن طالش، محمودسلطان، طارق جمیل، کامران مجاہد، اسلم شیخ، ثنابچہ، انوشے عباسی اوردیگر شامل ہیں۔ان تمام فنکاروں نے اپنااپناکام بخوبی نبھایاہے۔کچھ حقیقی صحافیوں کو بھی فلم میں اپنے اداکارانہ جوہر دکھانے کاموقع دیاگیا،جس کاتجربہ دلچسپ رہا۔
اس کی فلم ساز اورکہانی نویس فضاعلی مرزا ہیں،جنہوں نے اس پہلے فلم ”نامعلوم افراد“بھی بنائی تھی۔گزشتہ فلم کی طرح یہ فلم بھی باکس آفس پرکامیابی حاصل کرے گی،کیونکہ فلم میں تمام مصالحے شامل ہیں۔تشہیر کے لیے جتنے جدید طریقے اختیار کیے جانے چاہییں،ان کوبھی استعمال کیاہے،حتیٰ کہ ہندوستانی اداکاروں کی ہمارے ہاںجو پسندیدگی کاعنصرہے،اس کو بھی اوم پوری کی صورت میں کیش کرانے کی کامیاب کوشش کی ۔
نبیل قریشی نوجوان ہدایت کار ہیں،ان کی ہدایت کاری کاشعبہ کافی مضبوط رہا۔کرداروں کی تقسیم ،مناظر کی ایڈیٹنگ، لائٹنگ، شوٹنگ کے لیے جگہوں کاانتخاب،ڈریسز،ساﺅنڈسمیت تمام پہلوﺅں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے،سوائے اس بات کے، سماجی مسائل کوجس طرح بولی ووڈ انداز میں فلماکرحل کرنے کی کوشش کی گئی ،وہ نہ توکبھی ہندوستان میں حل ہوسکے اورنہ ہی یہاں ہوں گے،سوشل موضوعات کاتقاضایہ ہوتاہے،حقیقت سے قریب رہ کر فلم بنائی جائے،جس میں کہانی نویس اورہدایت کار کاکلیدی کردار ہوتاہے،صرف ”فینٹسی“سے گزارا نہیں ہوگا۔ فلم میں کہیں کہیںباریک غلطیاں بھی ہیں ،مثال کے طورپر شان مرزا(فہدمصطفی) مینا اسکرو والا(مہوش حیات)کو ویسپا پر ان کے گھر پہنچانے جارہے ہوتے ہیں،راستے میں اسکوٹر خراب ہونے پر وہ دونوںرات بھر اسکوٹر کے ہمراہ پیدل چلتے رہتے ہیں،حتیٰ کہ اگلادن طلوع ہوجاتاہے۔
فلم میں موسیقار نام کی توکوئی چیز نہیں ہے،البتہ شانی ارشد نے بیک گراﺅنڈ اسکور کے علاوہ ایک ٹائٹل سونگ کمپوز کیاہے،جس کو گایابھی خود ہے۔ وہ نئے موسیقار ہیں، ان کا کوک اسٹوڈیو میں کیاہواکام قابل تعریف ہے،مگرفلمی موسیقی کے مزاج سے آشنا ہونے کے لیے کافی وقت چاہیے۔ فلم میںدیگر دو گیت عاطف اسلم اورراحت فتح علی خان کے ہیں ۔عاطف کاگانا بھرتی کاہے،جس کو فلم میں شامل ہونے کی وجہ سے زبردستی سننا پڑے گا۔ راحت فتح علی خان کاگیت اچھا ہے۔گیت نگاروں کے بارے میں بھی کوئی تفصیل نہیں ملتی،کس نے کون ساگیت لکھاہے۔اس فلم موسیقی کے متعلق بہت زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں ،توبہتر ہے۔
پاکستانی جدید سینما کے عہد میں ایسی فلموں کی ضرورت ہے،جن کوباکس آفس پر کامیابی حاصل ہوسکے،اس فلم کاشمار ایسی فلموں میں ہی ہوگا،لیکن اگر فلم سازی میں فارمولے کوتخلیق پر ترجیح نہ دی گئی،توفلمی صنعت کایہ عروج وقتی ہوگا۔اس کی وجہ یہ ہے ،پڑوسی ملک میں فارمولااورغیرفارمولا دونوں طرح کی فلم سازی ہورہی ہے،جس سے ہمارے فلم بین واقف ہیں،اس لیے انہیں آپ زیادہ دیر تک اندھیرے میں نہیں رکھ سکیں گے۔
Discussion about this post