تحریر ۔حضرت بلال
محکمہ پولیس انصاف کی فراہمی کی پہلی سیڑھی ہے،اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ،لیکن جب پولیس میں کالی بھیڑوں کا راج ہوں تو معاشرہ خرابی کیطرف گامزن ہوتا ہے ،سوات میں غلط پالیسوں اور نظام کے ابتر صورتحال کیوجہ سے سوات کے خوبصورت وادی بارود کی ڈھیر میں تبدیل ہوئی تھی،بے پناہ قربانیوں کے بعد امن وامان کے صورتحال بہتر ہونا شروع ہوئی لیکن ایک مرتبہ پھر پولیس نے اپنا رویہ تبدیل کرکے تھانوں کا ماحول تیزی سے خرابی کی طرف گامزن کردیاہے اور پولیس فورس میں ذاتی طور پر جو لوگ ایماندار ہیں وہ خود اس صورتحال سے تنگ آچکے ہیں۔تھانوں کا ماحول انسان دوستی کی بجائے جرائم دوست بنتا جارہا ہے۔ تھانوں میں تعینات لوگ کسی کی طرفداری کرنے پہ آجائیں تو اس میں بھی انتہا ء تک پہنچ جاتے ہیں اور کسی کی مخالفت کریں تو بھی حدوں کو عبور کرنے میں دیر نہیں لگاتے ۔ تھانوں میں انصاف ، میرٹ ،مظلوم دوستی ، تہذیب، اخلاق اور قانون کی بالادستی تیزی سے مفقود ہوتی جارہی ہیں۔مظلوم اور شریف لوگ تھانوں کے قریب سے گزرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ تھانوں میں تعینات پولیس کا ہر اہلکار کسی بھی سلسلہ میں انصاف لینے کے لئے آنے والے ہر شخص کو مدعی سمجھنے کی بجائے اپنے لئے آسامی سمجھتا ہے۔ تھانہ کلچر اس قدر تکلیف دہ ہو چکا ہے کہ کوئی شریف آدمی اپنے خلاف ہونے والی کسی ناانصافی اور کسی کرائم کے خلاف شکایت لے کر جانے سے پہلے سو مرتبہ سوچتا ہے۔آفسوس سے کہنا پڑھتا ہے کہ پولیس کلچر میں تبدیلی کے دعویداروں کو نظر نہیں آرہاہے کہ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ پولیس اسٹیشن میں تعینات اخلاقی تربیت سے محروم پولیس اہلکار عوام کیساتھ کس طرح پیش آتی ہیں ،گذشتہ دنوں ایک غریب سبزی فروش کیساتھ مینگورہ پولیس اسٹیشن گیا جہاں پر ایک باآثر شخص نے سبزی فروش کو دس سال کے لئے اپنے جائیداد کرایہ پر دیا تھا اب چونکہ دوسری شخص نے مالک جائیداد کو زیادہ کرایہ دینے کا کہا تو باآثر حیثیت کے مالک نے پولیس کا سہارا لیکر غریب پرو سبزی فروش کو تنگ کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ،جس کے وجہ سے موصوف کا کاروبار متاثر ہوگیا اور بار بار ذہنی اذیت دینے کے لئے پولیس نے انہیں پولیس اسٹیشن کا طواف کرنے کو کہا ۔موصوف کو پولیس کے دلدل سے آزاد کرانے کے لئے اس سلسلے میں پولیس اسٹیشن کے محرر اور متعلقہ سفید پوش تھانیدارسے ملے تو بداخلاقی کے حدپار کرتے ہوئے کہا کہ اگر موصوف شرافت سے جگہ خالی کرتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ ہمیں بہت سے طریقے آتے ہیں ،پولیس کا یہ رویہ دیکھ کر کانپ اٹھا اور وہی دن یاد آیا جب انہیں کیوجہ سے سوات میں دہشت گردو ں کو تقویت ملی اور انہی کیوجہ سے علاقہ آگ اور خون کے کھیل میں کھیلتا رہا ۔سوات پولیس سے ہمارا کوئی لینادینا نہیں لیکن مینگورہ پولیس اسٹیشن میں تعینات قانون کے رکھوالوں کو دیکھ کر زمہ دارآفسران بالا کے توجہ اپنی صحافتی فرائض کو پورا کرنے کے لئے انہیں اگاہ کرنا ضروری سمجھتاہوں ،کیونکہ محکمہ پولیس بنیادی طور پر کسی بھی ریاست کا سول فورس کا وہ ادارہ ہوتا ہے جس کا کام امن و امان کا قیام، جرائم کی نشاندہی اور ان کی روک تھام سمیت قانون پر عملداری ہے۔ اس ادارے کو معاشرے کے لئے انتہاہی کارآمد بنایا ہے مگر ہمارے ہاں پولیس کو صدیوں پرانا نظام رائج ہے جس کی وجہ سے اس ادارے کو عوام اب کوئی مفید ادارہ نہیں سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس تمام صورتحال میں محکمہ پولیس اپنے بنیادی مقصد کو کھو رہاہے۔ محکمہ پولیس انصاف کی فراہمی کی پہلی سیڑھی ہے۔ تھانوں کو مظلوم شہریوں کی پناہ گاہیں ہونی چاہیے۔جہاں داخل ہونے والا شخص خود کو محفوظ سمجھے۔ اکثر مواقعوں پر دیکھا گیا ہے کہ مظلوم خود پولیس گردی کا شکار ہو جاتا ہے۔ کیونکہ مظلوم ہوتا ہی بے سہارا ہے اس لئے اس کو دبوچنا آسان ہو جاتا ہے جبکہ ظالم اور سفاک لوگو ں کی پشت پر سفید پوش بدمعاش چھپے ہوتے ہیں۔ حالانکہ دنیا بھر میں تفتیش کے جدید طریقے رائج ہیں۔دنیا میں پولیس تشدد از خود ایک جرم سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے کئی لوگوں کی زندگیا ں چلی جاتی ہیں مگر پولیس کے ہاتھ کوئی ثبوت نہیں آتا ہے۔ ہماری پولیس دنیا میں رائج اس اصول سے بے خبر ہے کہ جب تک کسی شخص پر جرم ثابت نہیں ہوتا ہے ان کو بے گناہ سمجھا جاناچاہئے اور ان کے ساتھ انسانیت پر مبنی سلوک ہونا چاہئے۔مگر ہمارے ہاں چوک چوراہوں پر یا کسی ملزم کی گرفتاری کے وقت اکثر پولیس اپنی طاقت دیکھاتی رہتی ہے اور کئی بے گناہ لوگ پولیس تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے مسائل لیکر تھانوں میں جانے سے کتراتے ہیں اور وہ اکثر قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور معاشرے کے اندر کئی قتل اور تشدد کے واقعات اسی کا نتیجہ ہیں۔
مجموعی طور پر پولیس کو انسان دوستی، مظلوم دوستی اور اچھے برے میں تمیز کی تربیت دی جائے اور پولیس فورس کی اخلاقی تربیت ان خطوط پر کی جائے کہ عوام پولیس پر اعتماد کرے اور پولیس کو دیکھ کر عورت ہو یا مرد ان کو تحفظ کا احساس اور سکون محسوس ہو اور عوام پولیس سے مدد لینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ پولیس کو انسانی حقوق اور ملزمان سے پیش آنے کے لئے رائج قوانین اور اصولوں کی خصوصی تربیت دینے کی ضروت ہیں ۔۔
…………………………………………………………………………………………………….
جناب انچارج کالم نگار
السلام علیکم ۔
مزاج گرامی بخریت سے ہوگی عرض ہے کہ درجہ ذیل کالم کو اپنے صفحات میں شائع کرکے مشکور فرمائے ۔
وسلام
صحافی حضرت بلال
رکن ایکشن کمیٹی سوات پریس کلب ،،موبائل نمبر0346-9451220
© 2018 - Zamung Swat News & Design s by Kinghost Solutions.
© 2018 - Zamung Swat News & Design s by Kinghost Solutions.
Discussion about this post