بالاخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، صوبائی حکومت خیبر پختونخوا نے اسمبلی میں سی پیک کے متعلق قرارداد اکثریترائے سےمنظورکرکےبعدالتہائیکورٹپشاورچیلنجکرلیہیں۔سی پیکراہداری منصوبہ اہم وفاقی اور صوبائی منصوبہ ہے ۔ سی پیک پر صوبائی حکومت کےوفاقی حکومت سے تحفظات اس کے شروع ہی دن سے تھے کیونکہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت سے آنکھ مچولی کا کھیل کھیلنی جا رہی تھی اور کسی طرح صوبائی حکومت کی تسلی اور تحفظات دور نہیں کروا رہی تھی۔ صورتحال اس وقت شدت اختیار کرگئی جس وقتحکومت کے طرف سےوفاقی وزیر احسن اقبال نے صوبائی حکومت کو بریفنگ دی، لیکن صوبائی حکومت نے مکملدستاویزی وضاحت طلب کی،وفاقی وزیر نہ تو دستاویزی ثبوتوں سے صوبائی حکومت کیتحفظات کی تسلیکیجاسکی اور نہ ہی کوئی دیگر تسلیاں اور بہانے کام آئی۔
پچھلے دنوں وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے بقول ’’ وفاقی حکومت سی پیک پر فراڈ کرنے کی مرتکب ہو رہی ہیں‘‘ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس بیان کے تناظر میں وفاقی حکومت اپنے نمائندے صوبہ کے با اختیار اعلی حکام کو بھیج دیتے اور اس مصوفبے کے تمام روٹس اور دیگر منصوبوں پر صوبائی حکومت کواعتماد میں لے لیتی لیکن صوبائی حکومت کو کوئی نمائندہ بھیجا گیا اور نہ ہی کوئی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر اخباری اشتہار دیا جاسکا ۔
چئیرمین پی ٹی آئی عمران خانکیساتھ چین کی سفیر نے ملاقات کرکے منصوبے پر بریفنگ دی ہیں۔ ۔ اور ساتھ ہی چینی سفیر نے عمران خان کو اعتماد میں لیکر باور کرایا ہے کہ یہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کیلئے سنگ میل ثابت ہوگااور ساتھ ہی اس پرکام جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ سی پیک پاکستان کی ترقی کیلئے گیم چینجر اور سنگ میل ثابتہوسکتا ہیں اور اس منصوبے سے خطے میں امن و خوشحالی اورغربت کا سد باب کیا جاسکتا ہیں۔ لیکن بد قسمتی سےوفاقی حکومت دیگر چھوٹے صوبوں کی تسلی نہ کرنے پر اس منصوبے کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے اور اس طرح اختلافات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ پیدا ہونے والا ہے۔ چھوٹے صوبوں کے مقامی کمیونٹیز،اعلی سیاسی قیادت اور راہنما صف اول کا کردار ادا کرتے ہوئےموقف اختیار کررہے ہیں کہ بڑے بھائی’’ پنجاب‘‘جو کہ سب سے زیادہ آبادی والے اور سیاسی طور پر مضبوط ترین صوبہ ہے ،نے چھوٹے صوبوں کی وسائل،زمین وغیرہ کا استعمال کرتے ہوئے تمام فوائد لیکر ہڑپنا چاہتے ہیں اور یہ اراکین اختلاف کرنے میں حق بجانبنظر آرہے ہیں کہ راہداری منصوبے پر چھوٹے صوبوں کو اعتماد میں نہیں لیا جا رہا ہے ۔
سید عالم محسودجوفعال سماجی و سیاسی کارکن ہیں نے پاکستان کے فوجی اور سویلین اداروں پر الزام لگایا ہیں کہ پنجاب کے فائدے کے لئے اقتصادی راہداری کے راستوں ’’مغربی روٹ ‘‘کو تبدیل کر دیا گیاہیں۔اور اس کی تائید میں یہ بتاتے ہیں کہ گلگتبلتستان،خیبرپختونخوا،سندھ اور بلوچستان کے لوگ اور سیاسی اکابرین سی پیک کی موجودہ حالت اور روٹس پر مطمئن نہیں ہے۔سید عالم محسود یہ فرماتے ہیں کہ اگر حکومت نے اپنی ہٹ دھرمموقف تبدیل نہیں کیا تو ہم اس کے مخالفت میں ہر حد تک جا سکتے ہیں اور تو اورسی پیک کے موجودہ حالت کیوجہ سے تشدد اور خون بھی بہہ سکتا ہیں۔ دیگر تجزیہ کار کہتے ہیں کہ راہداری منصوبے سے پاکستان چین کی صارف ریاست اور تجارتی کالونی بن جائگیو ۔
وفاقی حکومت اور فوج کا موقف ہے کہ سی پیک کے مخالفت کرنے والے پاکستان کی ترقی، ملک دشمن عناصر اور غدار ہیں ۔مقامی لوگوں اور سیاست دانوں کے اختلافات کے باوجود ملٹری اور وفاقی حکومت سی پیک کو ہر حال میں پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ دیگر صوبوں کے سی پیک کی متعلق کیا کیاموقف ہے ۔’’بلوچ آزادی پسند تحریکیں سی پیک کی بھر پور مخالفت اس وجہ سے بھی کر رہی ہے کہ سی پیک سے بلوچستان کے وسائل کا مزید استحصال کیا جائیگا اور ان کی جائز حقوق کی پامالی کا جواز پیدا کرکے ان پر اپریشن کی حوصلہ افزائی کیجائیگی‘‘ کراچی جو ملک کا سب سے بڑا اکنامکہب ہے وہ’’ ایم کیو ایم ‘‘ تیار نہیں ہیں کہ کراچی کے تماماکنامی کو بیجنگ کے مال سے بدلنے کیلئےتیارہوجائیں۔خیبر پختونخوا اور گلگتبلتستان جہاں سے سی پیک برآمد ہوتا ہیں یعنی مغربی روٹ منصوبے میں صوبے کے لوگوں کے حقوق اور وسائل کے برعکس انتہائی کم حصہ دیا گیا ہیں۔’’راہنما اے این پی اسفندیار ولی خان فرماتے ہیں سی پیک پر پختونخوا کو اسکا قانونی حق دیں ورنہ دما دم مست قلندر ہوگا ۔انہوں نے فرمایا کہ وزیر اعظم نواز شریف اپنا وعدہ پورا کریں ورنہ ہم کو اپنا حق لینا آتا ہے اور با چا خان کی سپاہی اس کیلئے تیار ہے ،ہم ڈنڈوں سے گھبرانے والے نہیں ۔اس کو پھر جدہ میں بھی پناہ نہیں ملے گا ‘‘
وفاقی وزیر احسن اقبال پلاننگ اینڈ ڈویلپمینٹ نے صوبائی حکومت خیبر پختونخوا کو دھمکی دی ہے کہ ہائیکورٹ میں رٹ فائل کرنے سے صوبائی حکومت کو مشکلات پیش آئینگی ۔ حال ہی میں صوبہ کی سیاسی پارٹیوں کے اکابرین، جماعت اسلامی ، قومی وطن پارٹی، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، جے یو ائی اور اے این پی کے علاوہ ’’۹‘‘ سیاسی پارٹیوں نے چین کے دورے پر سی پیک کے خدوخال اور سرمایہ کاری بارے معلومات حاصل کرنے گئے تھے ۔لیکن چینی حکام نے اعدادوشمار کے علاوہ مغربی روٹ پر جواب دینے سے صاف انکار کیا اور کہا کہ سی پیک منصوبہ میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے تحفظات دور کرنا یا مساوی حصہ دینا چین کا نہیں بلکہ پاکستان کی حکومت کا کام ہیں ۔جس کیلئے مرکز اور صوبوں کو آپس میں معاملات طے کرنا چاہئے ۔کیونکہ پاکستان کیا انتظامات کرنا چاہتے ہیں اس سے چین کو کوئی سروکار نہیں ہے یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ۔
سپیکر صوبہ خیبر پختونخواہ اسد قیصر نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ خیبر پختونخوا نے پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کی لئے ہمیشہ قربا نی دی ہوئی ہیں لیکن وفاقی حکومت نے ہر وقت میں صوبائی حکومت کو یکسر نظر انداز کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر وزیر اعظم فیڈریشن کی بات کرتا ہیں تو اس کو ایک صوبے کی سوچ سے نکلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہصوبائی حکومت مغربی روٹ کو صوبائی حکومت کا مرکزی روٹ بنانے کی خاطر ہر فورم پر اپنا آواز اٹھائی گی ۔
صوبائی حکومت اور دیگر تمام سیاسی و غیر سیاسی پارٹیاں علاوہ جے یو آئی سی پیک پر تقریباً ایک صفحے پر ہیں۔ سب بیک وقت ایک ہی آواز پر لبیک کیے ہوئے ہیں ،۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام پارٹیاں اپنے موقف کیساتھ صوبائی ایشوز پر مکمل ہم آہنگی اور اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں تاکہ صوبائی حکومت وفاقی حکومت کو مجبور کرسکیں اور کم از کم وفاق سے اپنے منصفانہ حصہ کے حقوق لے سکیں اور اس طرح ایشو کے تمام دیگر مراعات اور مفادات کے تحفظکو یقینی بنایا جا سکیں ۔ یہسوالات صوبائی حکومت اور عوام الناس کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔میری دانست میں اگر ان سوالوں کا جواب نہیں دیا گیا تو راہداری منصوبہ متنازعہ بن سکتا ہیں ۔
۱:۔ کیا اورنج ٹرین منصوبہ سی پیک ہی کیساتھ جڑا ہوا ہے اور اس منصوبے کو کس دوسرے پروگرام کو ختم کرکے بنایا گیا ہے ۔اورنج ٹرین کی توسیعی منصوبے میں کس پراجیکٹ کو ختم کرکے فنڈز مہیا کئے گئے ہیں ۔
۲:۔کیا سی پیک فا ئنینشل گرانٹ ہےیا یہ ڈپٹ ایڈ یعنی قرضہ ہے ؟اور کیا صوبے اس کو بمطابق شئیر ادا کرینگے؟ یا اسے صوبے برابری کی بنیاد پر ادا کرنے کے پابند ہونگے ؟۔ کیا فیڈریشن نے مذکورہ منصوبے پر تمام صوبوں کو اعتماد میں لیا ہوا ہے ۔ اور وفاق نے قرض کی ادائیگی کیلئے کیا طریقہ کار وضع کیا ہے ؟
۳ :۔کیا دیگر صوبوں کو انڈسٹرئیل زونز اور فائبر اپٹک کا نظام دیا گیا ہے ۔ اور کیا انڈسٹرئیل زونز لنک روڈز پر ہونگی ؟
۴ :۔کیا دیگر پلاننگ ،روٹس جو کہ تبدیل کئے گئے ہیں ۔کیااس پر صوبوں کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور مذکورہ تبدیل شدہ روٹس کے کیا فائدے اور نقصانات ہوسکتے تھے ؟
۵ :۔کیا راہداری منصوبہ صرف ایک صوبے کے فائدے کیلئے بنا یا گیا ہے ؟
۶ :۔کیا وفاقسی پیک کے توسط سے دیگر صوبوں میں بھی بس سروسز اور اورنج ٹرین جیسے منصوبے بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں؟
۷:۔سی پیک منصوبے کیلئے کتنی میگا واٹ بجلی درکارہوگی ؟کونسے صوبے یہ بجلی مہیا کریگی ؟کیا سی پیک کے لئے پیدا کردہ بجلی دیگر صوبے بھی استعمال میں لائیگی؟بجلی اور گیس کی پیدواری کھپت کی پیسے متعلقہ صوبے کے خزانے میں جائیں گے ؟یا اسے وفاقی خزانے میں جمع کیا جائیگا؟
اور آخری سوال کہ صوبوں کو اس منصوبےکے فائدےکس قاعدے ،اعداد و شمار کے بنیاد پر کس طرح دیگر صوبوں بشمول پنجاب کو میسر ہونگے؟
آخر میں یہ عرضی اوردرخواست کرنا اپنی ذمہ داری مانتا ہوں ’’کہ خدا راں پاک چائنہمعاشی راہداری منصوبہ کو متنازعہ ہونے سے حتی الامکان بچا یا جائے‘‘ ۔
ختم شُد
نصیر اللہ خان ایڈوکیٹ ہائی کورٹ
Discussion about this post