وزیراعظم نواز شریف ایک طرف جہاں اپنی طبیعت خرابی کا تذکرہ کرتے ہیں وہیں دوسری جانبعلاج کروانے سے بھی انکاری ہیں۔ اس حوالے سے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں صحافی نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ میری جناحاسپتال کے ایک سینئر ڈاکٹر سے بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو 28 دن سپتال میں رکھا لیکن بیماری کی کوئی علامت ظاہر نہی ہوئی اس لیے انہیں ڈسچارج کر دیا گیا۔اینجوگرافی اس لیے نہیں کروا رہے کہ ایکسپوز ہو جائیں گے اور اگر کچھ نکلا بھی تو وہ فوری طور پر ٹریٹ ہو جائے گا، اگر ایسا ہوا تو ضمانت نہیں ملے قبل ازیں بھی علی حیدرنے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا کہ بیماری ہے پر علاج نہیں کروانا، پورے صوبے کے ڈاکٹرز خدمت میں حاضر ہیں پر کہا جاتا ہے کہ یہاں علاج ممکن نہیں، جس پاکستان میں یہ تیس سال تک سیاہ و سفید کے مالک رہے وہ ملک اگر ان کے علاج کے قابل نہیں تو پھر افسوس ہے۔یاد رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیماری اور ان کی ضمانت ایک معمہ ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیماری سیاست چمکانے کے لیے ہے اور وہ ضمانت کروا کر اگر علاج کی غرض سے لندن چلے گئے تو واپس نہیں آئیں گے۔سابق وزیراعظم نوازشریف حکومت کی طرف سے سہولت ملنے کے باوجود بھی علاج کے لیے تیار نہ ہونے کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کے قریبی دوستوں اور قانونی مشیروں نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ حکومت کی طرف سے علاج کی پیشکش قبول کر نے سے اپیل میں ریلیف ملنے کے امکانات کم ہیں کیونکہ حکومت کہہ سکتی ہے کہ نوازشریف کو قید کے باوجود اسپتال میں بہترین طبی سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں۔اگر اسی بنیاد پر ضمانت طلب کر رہے ہیں تو وہ تو بغیر ضمانت بھی کیا جا رہا ہے ۔ اس حوالے سے کالم نگار منیر احمد بلوچ نے اپنے حالیہ کالم میں اہم انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے لیے اسپتالوں میں بہترین کمروں کا انتخاب کیا گیا لیکن چونکہ نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکےہیں اس لیے انہیں خدشات ہوتے ہیں کہ اسپتال کے جن کمروں میں انہیں رکھا جائے گا انہیں حکومت کی چند ایک ایجنسیوں نے ان کے وہاں آنے سے پہلے مکمل طور پر انتہائی محفوظ طریقوں سے آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کے لیے ”بگ” کر لیا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ جناح اسپتال لاہور میں جب انہیں تین کمروں پر مشتمل حصے میں لایا گیا تو انہوں نے وہاں رہنے سے انکار کرتے ہوئے گائنی وارڈ میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔۔
Discussion about this post