• Latest
  • Trending
  • All
  • تازہ ترین
  • International
سوات میں فوجی چھاونی کا قیام، سوات کی ترقی کے لئے امید کی نئی کرن

پہ ولایت کے

4 months ago
طلباء و طالبات محنت،لگن اور شعور سے تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کریں،جی او سی مالاکنڈ

طلباء و طالبات محنت،لگن اور شعور سے تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کریں،جی او سی مالاکنڈ

11 hours ago
ضابطہ دیوانی اور انٹی نارکاٹکس ایکٹ میں ترامیم کے خلاف سوات کے وکلاء کا احتجاج

ضابطہ دیوانی اور انٹی نارکاٹکس ایکٹ میں ترامیم کے خلاف سوات کے وکلاء کا احتجاج

11 hours ago
ٹمبر مافیا کے خلاف جاری اپریشن میں سوات پولیس کی ایک اور کامیابی

ٹمبر مافیا کے خلاف جاری اپریشن میں سوات پولیس کی ایک اور کامیابی

12 hours ago
162 پاکستانی افغانستان کے قبضے میں ! کابل ائیر پورٹ پر پی آئی اے کی پروازکواسلام آباد جانے سے روک دیا گیا

162 پاکستانی افغانستان کے قبضے میں ! کابل ائیر پورٹ پر پی آئی اے کی پروازکواسلام آباد جانے سے روک دیا گیا

13 hours ago
687 بیمار صنعتی یونٹس کو فوری طور پر بحال کرنے کا فیصلہ،وزیراعظم عمران خان نے معیشت کو مستحکم بنانے کیلئے بڑے اقدامات کا اعلان کردیا

بادشاہی نظام رائج کرنے سے مسلمان پیچھے چلے گئے، بڑے مقصد کیلئے کشتیاں جلانا پڑتی ہیں،عمران خان نے نوجوانوں کو اہم پیغام دیدیا

13 hours ago
چین کا معروف پاکستانی سائنسدان اور ماہر تعلیم کو اعلیٰ ترین ایوارڈ دینے کا فیصلہ

چین کا معروف پاکستانی سائنسدان اور ماہر تعلیم کو اعلیٰ ترین ایوارڈ دینے کا فیصلہ

13 hours ago
پاکستان میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کا منصوبہ،روس کا 9رکنی اعلیٰ سطحی وفد پاکستان پہنچ گیا

پاکستان میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کا منصوبہ،روس کا 9رکنی اعلیٰ سطحی وفد پاکستان پہنچ گیا

13 hours ago
امریکی تکبر نے مشرق وسطیٰ میں امن تباہ کیا،فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی عالمی معاہدوں کی توہین ہے، چین شدید برہم،دھماکہ خیز اعلان کردیا

امریکی تکبر نے مشرق وسطیٰ میں امن تباہ کیا،فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی عالمی معاہدوں کی توہین ہے، چین شدید برہم،دھماکہ خیز اعلان کردیا

13 hours ago
سانا مارین دنیا کی سب سے کم عمر وزیراعظم  ان کی عمر کتنی اور تعلق کس ملک سے ہے؟ جانئے

سانا مارین دنیا کی سب سے کم عمر وزیراعظم ان کی عمر کتنی اور تعلق کس ملک سے ہے؟ جانئے

13 hours ago
پاکستان میں10 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی، سری لنکن ٹیم اسلام آباد پہنچ گئی،جانتے ہیں کپتان نےپاک سرزمین پر قدم رکھتے ہی کیا اعلان کیا؟

پاکستان میں10 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ کی واپسی، سری لنکن ٹیم اسلام آباد پہنچ گئی،جانتے ہیں کپتان نےپاک سرزمین پر قدم رکھتے ہی کیا اعلان کیا؟

14 hours ago
دورہ پاکستان سے قبل ہی سری لنکا کے اہم بولر ڈینگی کا شکار ہو گئے،  ٹیم سے باہر

پاک سری لنکا ٹیسٹ سیریز 16 دسمبر تک میڑو بس سروس کا شیڈول تبدیل جڑواں شہروں میں بس سروس کتنے بجے شروع کی جائے گی؟

14 hours ago
‘ فرنگی کو بھگایا گیا ہے‘ مگر اُن کے حواریوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا

‘ فرنگی کو بھگایا گیا ہے‘ مگر اُن کے حواریوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا

1 day ago
No Result
View All Result
  • ur اردو
  • en English
Tuesday, December 10, 2019
23 °c
Denpasar
25 ° Sun
26 ° Mon
26 ° Tue
26 ° Wed
ZamungSwat
  • Home Page
  • Swat News
  • Swat Videos
  • Swat Tourism
    • Swat Photos
  • National News
  • Sports
  • Articles
  • Home Page
  • Swat News
  • Swat Videos
  • Swat Tourism
    • Swat Photos
  • National News
  • Sports
  • Articles
No Result
View All Result
ZamungSwat
No Result
View All Result
Home Articles

پہ ولایت کے

Murad Iftikhar by Murad Iftikhar
August 4, 2019
in Articles
0
سوات میں فوجی چھاونی کا قیام، سوات کی ترقی کے لئے امید کی نئی کرن
0
SHARES
65
VIEWS
Share on FacebookShare on Twitter

تحریر : شہزاد عالم

2 جولائی منگل کے روز مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد اللہ کا بابرکت نام لیکر میں، حاجی انور علی اور حاجی آفتاب علی‘ غواریجو خان کی گاڑی میں سوار ہوکر اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے ،راستے میں بھوک لگنے پر حسن ابدال میں میاں جی کی ہوٹل میں اس وجہ سے جی بھر کر کھانا کھایا کہ یورپ اور انگلینڈ میں پاکستانی کھانے اور خاص کر یہاں کی گندم کی روٹی کھانے کو نہیں ملتی ، ائرپورٹ پہنچ گئے ،اور بورڈنگ دغیرہ کرنے کے بعد قطر ائر لائن کی جہاز میں بیٹھ کر روانہ ہوئے ، ساڑھے تین گھنٹے کے ہوائی سفر کے بعد جب قطر پہنچے تو اس وقت تنہائی محسوس ہوئی جب انور علی اور آفتاب علی اٹلی اور میں مانچسٹر کیلئے روانہ ہو رہے تھے کیونکہ یہ پہلی بار ہو رہا تھا اس سے قبل میرے بڑے بھائی غلام فاروق سپین دادا یا میرے دوسرے ساتھی میرے ساتھ ہوتے تھے لیکن اس دفعہ مجھے اکیلا سات گھنٹے سفر کا سوچ سوچ کر دم گھٹنے لگا ، کچھ دیر ویٹنگ روم میں بیٹھنے کے بعد دوبارہ انور علی کو ڈھونڈتے انکے ویٹنگ لاونج میں چلا گیا اور جہاز کے اٹھنے سے تیس منٹ پہلے تک ایک ساتھ رہے لیکن جب بار بار انوسٹمنٹ ہونے لگی تو اللہ اللہ کرکے اپنے فلائٹ کی طرف روانہ ہو دوران سفر سات گھنٹے ہوائی جہاز میں کبھی سوتا تو کبھی جاگتا اور آخر کار یہ سفر تمام ہوا، میری تمام تر تھکاوٹ اس وقت دور ہوئی جب مانچسٹر ائیرپورٹ سے باہر میرے بھائی جیسے دوست اکرام اللہ خان جنکا تعارف میرے ساتھ میرے صحافی دوست اور پریس کلب کے جنرل سیکرٹری خورشید عمران کی وساطت سے ہوئی تھی کو ناصر خان کے ہمراہ دیکھا، تھکاوٹ دور ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد خوشی محسوس ہوئی ،کیونکہ جب کوئی ملک سے باہر جاتا ہے اور ائیرپورٹ پر انکو ریسو کرنے والا کوئی نہ ہو تب اسے اجنبیت محسوس ہوتی ہے لیکن اب مجھے وہ شہر جانا پہچانا لگا کیونکہ میں تقریبا دو ہزار بارہ سے ہر سال سالانہ چھٹیوں میں یورپ جاتا رہاہوں اور انگلینڈ بھی یورپ کا سماں پیش کر رہا تھا ،اکرام اللہ خان اور ناصر خان مجھے ریسیو کرنے کے بعد سیدھا ایک پاکستانی ریسٹورنٹ پر لے گئے اور کھانے کے بعد گھر کی طرف روانہ ہوئے ،میں بتاتا چلو کہ اکرام اللہ خان کا تعلق مینگورہ کے علاقے طاہر آباد سے ہے اور وہ وہاں پر شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں وہاں پر تعلیم حاصل کرنے کے بعد مشکل زندگی گزارنے کے بعد اب وہ وہاں پر سیٹ ہوکر خوب عیش کی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ انکا وہاں پر ایک بہترین سٹور اور انکے ساتھ درجن بھر کام کرنے والے ہےں، وہ مرسیڈیز گاڑی میں گھوم پھر کراپنے باہر کے کام دیکھتا ہے اور کچھ لمحوں کیلئے سٹور پربھی جاتا ہے اسکے ساتھ ساتھ وہ سیاست میں بھی حصہ لے رہے ہیں اور وہاں پرپی ٹی آئی کے مانچسٹر زون کے صدر بھی ہےں یوں میری یہ حسرت بھی پوری ہوئی اور ٹھیک ٹھاک صبح تک پاکستانی سیاست پر میری اور اسکی جھڑپیں ہوتی رہیں ، ناصر خان کا تعلق مینگورہ کے معروف خاندان بخت روشن خان کے خاندان سے ہے، انہوں نے سابق ناظم فریدون خان اور دیگر کے نام لیکر جیسے میں اپنے گھر میں رہ رہا ہوں اور ویسے تو انکے سارے دوستوں نے میرا بہت خیال رکھا اور بڑے بھائی کی طرح عزت دی لیکن ناصر خان اور اکرام اللہ خان کی محبت کو میں کبھی نہیں بھلا سکونگا ،ابھی گھر پہ آدھا گھنٹہ گزارا ہی تھا کہ ناصر خان کا دوست اورکزئی آیا اور کہا کہ چلو ،ویلز ،کی طرف نکلتے ہیں ،یوںانگلینڈ کے اس حسین اور بلند جگہ پر گئے جہاں پر ہوتے ہوئے محسوس ہو رہا تھا کہ میں ملم جبہ یا کالام میں موجود ہوں فرق صرف یہ تھا کہ وہاں کی موٹر ویز اور ایک سو بیس کلو میٹر کا راستہ چالیس پنتالیس منٹ میں طے کرتے ہوئے مجھے ملم جبہ کی 45 کلو میٹر کا راستہ تین گھنٹے اور بحرین سے کالام کا 32 کلومیٹر کا راستہ چھ سے سات گھنٹے میں یاد آتارہا ،لیکن ہماری حکومتوںسے دس سال کے بعد بھی اس چھوٹے روڈ کی تعمیر نہیں ہو پارہی ہے جبکہ ان حکمرانوں نے پورے انگلینڈ کے ارد گرد موٹر ویز بنا رکھے ہیں اور شہر بھر میں بھی ایکسپریس وے کی جال بچھا رکھی ہے ۔ویلز کودیکھنا جیسے میرا خواب ہو کیونکہ میرے بھائی جیسے دوست اور سینئر صحافی رشید صافی صاحب جب بھی انگلینڈ جانے کا کہتے تو ویلز کا تذکرہ ضرور کرتے اور ناصر خان نے میرے ویلز دیکھنے کے خواب کو حقیقت میں بدل دیا ،وہاں کی خوبصورتی سے خوب محظوظ ہوا ،ہم تو سوات اور پاکستان میں سیاحت کے فروغ کی باتیں کرتے ہےں لیکن وہاں کی سیاحت کو ہم اگلے سو سالوں میں بھی نہیں پہنچ سکتے ،جس طرح کے انتظامات ان لوگوں نے کئے ہیں ہمارے وہم و گمان بھی وہ نہیں آسکتے ،انگلینڈ اور یورپ تو دور ہم تو دبئی اور ملائشیا تک سیاحت میں پہنچنے کا تصور نہیں کر سکتے ، ایسے مہذب لوگ ! وہاں کے بس اور ٹرین کا ایسا انتظام کہ باہر سے پتہ بھی نہیں چلتا کہ اندر ٹرین یا بس سٹیشن ہے اور اندر جاکر ان کو ایک بھیڑ نظر آئے گی اور ہر طرف انسان ہی انسان نظر آئیں گے لیکن مجال ہے کہ کہیں سے کوئی چیخ وپکار یا ہشنغری یا صدر جیسی آوازیں آپ کو ملےں جس طرح ہمارے بس سٹیشنوں پر کلینروں کی آوازیں سنائی دیتی ہےں ۔پورے انگلینڈ سے گھومتا ہوا ٹرین اور لوکل مسافروں کیلئے انڈر گراونڈ ٹرینیں تو قابل دید ہےں، وہاں سے انکا جو ذریعہ معاش ہے جبکہ ہمارے ملک کے ریلوے تو کیا پی آئی اے بھی گھاٹے میں جا رہا ہے اس پر آگے لکھوں گا ”ٹرین اور جہاز پر لکھنا ہے“ویلز میں شام کے وقت جولائی کے مہینے میں چلنے والی ٹھنڈی ہواﺅں نے تو جیسے ماحول کو رنگین اور محصور کن بنا دیا کہ وہاں سے جانے کو جی بھی نہیں کر رہا تھا، وہاں پر لور ز پوائنٹ اور معاشقوں کی تو بات ہی اور تھی جس میں دو دو جوڑے ایسے مگن جیسے تو ارد گرد کے ماحول سے بے خبر ہوں اور اپنے ہی خیالوں میں گم کسی کو دیکھ بھی نہیں رہے تھے ، اوپر ٹاپ پر چڑھنے کے بعد پورا مانچسٹرکا نظارہ آنکھوں کے سامنے تھا! واہ تیرا کیا کہنا ،حسین نظارے بندے کو وہاں رہنے پر مجبور کرتے ہےں اور خوب ہلا گلا کرنے میں مصروف تھے کہ اوپر سے بار بار اکرام خان کے فون کالز نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا اور جلدی آنے کا کہہ کہہ کر ہمیں وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا ۔رات کے دس بجے بھی سہ پہر کا گماں لگ رہا تھا کیونکہ عشاءکی نماز ساڑھے گیارہ بجے ادا ہوتی تھی اور انگلینڈ میں اچھی بات یہ تھی کہ ہر گلی اور کوچے میں مسجد تھی ،چرچ اور مندر بھی تھے وہاں پر کسی پر کوئی بھی مذہبی پابندی نہیں ہے جو جہاں چاہیں جائیں اور اپنی عبادت کرے جبکہ صبح چار بجے روشنی ہو جاتی اتنے لمبے دن کہ بندہ دن میں سو کام نمٹا لے، موج مستی کرتے ہوئے تاریخی مقامات کی سیر بھی کرتے ہوئے آخر کار ہم پہنچ ہی گئے ،اور دیکھا کہ میرے دفتر یا حجرے جیسا ماحول مجھے مانچسٹرمیں ملا کیونکہ اکرام اللہ خان کے حجرے میں ہجوم اور ہر کوئی جانتے والا جیسے کہ طاہر آباد کے نیاز خان ایڈوکیٹ کا بیٹا معاذنیاز،اظہار خان جسکا وہاں پر بھی ٹھیک ٹھاک بزنس ہے اظہار خان کس روڈ کے معروف شخصیت کاکا خان جبکہ انکے بیٹے امداد اللہ خان کا ماموں زاد ہے اور وہاں پر انکے اپنے سٹور ہےں جس میں نوکر کام کرتے ہیں اور وہ باہر کاکام دیکھتا ہے مردان کے پیر عزیر علی،پشاور کے سہیل خان اور بھی بہت سارے دوست موجود تھے ، وہاں ایک ساتھ کھانا کھانے کے بعد کریم بورڈ شروع ہوجاتا اور آدھی رات تک شوروغل کا میلہ سجا رہتا ، مجھے مانچسٹر میں ہونے کا گمان تک نہیں ہو رہا تھا اور جب باہر نکلتا تب پتہ چلتا کہ میں ولایت میں ہوں آدھی رات کو سب اپنے اپنے گھروں میں چلے جاتے اور صبح کام کام کام اور صرف کام ‘دوبارہ سے شروع ۔لیکن میرے دوستوں نے وہاں پر ڈیوٹیاں تقسیم کی تھیں ، ناصر خان تو‘ مالک خو پہ کے لیک دے ،کے مصداق ہر وقت موجود رہتے اور مجھے سیر سپاٹوں پر لے جاتے وہاں پر دوپہر اور ہماری صبح ہوتے ہی اکرام خان مجھے ساتھ لے گئے لیکن وہاں پر اظہار خان بے تابی سے بار بار فون پہ فون کرکے مجھے اپنے ساتھ لے جانے کیلئے بلا رہے تھے اور جب ہم گھر پہنچے تو وہ مجھے اور ناصر خان کو لیکر پہلے تو ایک مہنگے مال میں لے گئے جہاں پر وہ مجھے شاپنگ کی دعوت ایک الگ اندازسے دے رہے تھے اور مجھے پر فیوم کی بہت سارے اقسام دکھائے جس کو میں نے زندگی میں پہلے نہیں دیکھا تھا، ہر پرفیوم کا نام اور انکے اقسام اور ان کی خاصیت اس انداز سے سمجھا رہے تھے کہ مجھے تو ایک وقت یہ محسوس ہوا کہ خرید ہی لوں لیکن ایک طرف انکی قیمت اور دوسری طرف پیسے وہ دینے کا سو چ کر میں نے اسے یہ بتایا کہ بھائی میں پرفیوم استعمال ہی نہیں کرتا ،تو وہ دوسری اشیا ءکے سٹال پر لے گئے لیکن میں نے جگہ کی کمی کا بہانا بنا کر گلو خلاصی کرلی اوروہاں سے نکل پڑے، وہ بار بار ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھے کہ مجھے امداد اللہ خان نے فون کیا ہے کہ کاکا کو ناراض نہیں کرنا ہے ،امداد اللہ خان میرے چھوٹے ہےں اور سوات میں انکا خاندان کا اپنا ایک مقام ہے انکے والد کاکاخان اور انکی والدہ محترمہ ڈاکٹر زینت کی علاقے کے لئے جو خدمات ہےں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، نہایت ہی قابل قدر لوگ ہیں ،اظہار خان مجھے وہاں سے لیکر ایک پارک میں لے گئے جہاں پر ہم گپ شپ میں مصروف تھے کہ اچانک ناصر خان نے مجھے بتایا ،کاکا ،آپ ان دو افراد کو جانتے ہے میری نظر پڑنے پر ہمارے سینئر اور شفیق دوست اور سینئر صحافی صلاح الدین خان لالا کے بیٹے شوکت خان جی اور ٹھیکیدارطارق حسین پر پڑی تو مجھے بے حد خوشی محسوس ہوئی، انہوں نے مجھے دیکھ کر میرا جو استقبال کیا وہ قابل دید تھا کافی وقت گپ شپ کے بعد اظہار خان ہمیں کھانے پہ لے گئے جہاں پہ شوکت خان اور طارق حسین بھی ساتھ تھے اور خوب انجوائے کیا واپسی پر ایک دوست سے ملاقات بھی کرائی اور ایک دوسرے کو دیکھتے ہی بچپن کے دن یاد آنے لگے کیونکہ نور محمد خان میرے کلاس فیلو تھے اورہماری ملاقات تقریباً بیس سال بعد ہوئی چائے پی لی اور منزل مقصود گھر کی طرف روانہ ہوئے ۔نور محمد خان کے ساتھ سکول کے دنوں کی کافی باتیں ہوئیں اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ہم بچپن میں کھو گئے ہیں لیکن وقت نے ساتھ نہیں دیا اور ہم سے چند لمحوں بعد وہ خوشیاں بھی چھین لی گئیں جس کو آج بھی ہم یاد کرتے ہیں ۔اسکول کے وہ دن جس میں ہمیں ایک اٹنی دی جاتی تھی ،ملیشا کے وہ پرانے کپڑے اور پھٹے ہوئے جوتوں میں جو سکون اور راحت تھی آج کروڑوں روپے اور اعلیٰ شان و شوکت میں بھی میسر نہیں ہے، اس وقت ہماری شرارتیں اور سکون ،کبھی واپس نہیں آنے والا ! کسی نے کیا خوب کہا ہے !
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
مگر مجھ کو لو ٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
گھر پہنچنے کے بعدپھر وہی محفل لگ گئی جس کے ہم پاکستان میں عادی ہےں، دوستوں کے بغیر ہمارا گزر بسر ممکن نہیں ،اور پھر سیاسی رسہ کشی اور سوات کے حالات اور ملکی موجودہ صورتحال پر ایسے مگن ہوئے کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ صبح کے پانچ بج چکے ہےں، آرام کرنے اپنے کمرے میں جاکر بستر لے کر اور گھوڑے بیچ کر سوگیا ،اگلی صبح باری تھی بہرام خان اورکزئی اور ساتھ میں موجود ہے ناصر خان ، ہم ایک نئے سفر پہ نکل گئے جس کو ٹائی ٹینک پارک بھی کہا جاتا ہے یہاں پر ٹائی ٹینک شیپ کے ان اوزار کا پارک بھی بنایا گیا ہے جس کے ٹکڑے دریا سے مل گئے تھے ٹائی ٹینک 1912میں ڈ وبتے وقت اسمیں 2224 افراد سوار تھے جن میں 109 بچے ،425 خواتین اور 1690 مرد شامل تھے ۔اسکو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے یاد گار بنائے گئے ہیں اور جو کوئی یہاں سے گزرے گا وہ یہ ضرور دیکھ کے جائے گا کیونکہ یہ یاد گار ایسے سپارٹ پر بنایا گیا ہے جہاں سے ملک کے ہر کونے سے شیپ آتے اور جاتے ہیں اس وجہ سے یہاں پر ہر وقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے ،وہاں پر ہم نے پورا دن گزارا بلکہ دو دن اس وجہ سے گزارے کہ ایک دن دو دن کے برابر رہا صبح چار بجے کی روشنی اور رات بارہ بجے تک ہوتی تھی ۔واپسی کا سامان باندھا تو ہر کوئی انتظار میں تھک چکا ہوتا کیونکہ پورا مینگورہ ہی اکرام خان کے ڈیرے پر جمع ہوتا اور پھر صبح تک کڑوا سچ بولا جاتا ،اگلی صبح پاکستان اور بنگلہ دیش کا میچ تھا جسکو دیکھنے جانا تھا اس وجہ سے تمام دوستوں سے کہا کہ اپ لوگ کام پر چلے جائیں میں اکیلا ہی وہاں جاونگا اور ایک دو راتیں گزار کر واپس یہاں آجاﺅنگا ،یعنی میرا بیس مانچسٹر ہوگا اور اگلے روز معاذ نیاز میرا ٹکٹ لے کر مجھے بزریعہ ٹرین لندن کی طرف رخصت کر گئے جبکہ میچ کا ٹکٹ پہلے ہی سے وہاں پر ہمارے سابق کولیگ زاہد خٹک کر چکے تھے، لندن پہنچنے پر میں نے دوسرا ٹرین لارڈز کی طرف لینا تھا وہاں پر سکیورٹی والے سے ٹرین کے ٹکٹ کا معلوم کرنے پر انکا سوال ،یو فرام ،میں نے پاکستان کا کہا تو اس نے آنے کا پوچھا اور میں نے کرکٹ میچ دیکھنے کا کہتے ہی انہوں نے ٹرین کیلئے جانے والا راستہ کھول دیا کہ کسی ٹکٹ کی ضرورت نہیں اور میں نے ایک بار پھر پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بغیر ٹکٹ کے روانہ ہوا، یوں میں لارڈز پہنچ گیا اور وہاں میچ دیکھنے میں مصروف تھا کہ ایک نمبر سے فون آیا ،زاہد خٹک نے آپ کا نمبر دیا ہے اور میں پریس گیلری میں آپ کا انتظار کر رہاہوں وہاں سے نکلتے ہی باہر ایک صحافی جن کا نام میں ابھی بھول رہا ہوں چینل فائیو لندن کا بیوروچیف تھا ہاتھ میں کوکا کولا کا بوتل لئے میرے لئے کھڑا تھا گپ شپ لگ رہی تھی کہ اسی دوران میاں سلمان جوکہ لندن میں بی بی سی کا رپورٹرہیں آئے اور جب انہیں پتہ چلا کہ پاکستانی اور پھر پٹھان وہ بڑے خوش ہوئے اور کھانے کی دعوت سمیت ٹھیک ٹھاک گھنٹوں میں گپ شپ ہوئی ، انہوں نے بتایا کہ بڑے عرصے بعد باہر کسی پٹھا ن سے اپنے مادری زبان میں بات کرکے بڑا مزا آرہا ہے لیکن ایک طرف میچ دیکھنا اور دوسری طرف قابل احترام افضل شاہ باچہ کے چھوٹے بھائی رحیم شاہ باچہ انتظار میں تھے تو اس وجہ سے مجھے جلدی نکلنا پڑا ، وہاں سے رحیم شاہ جس شاہانہ انداز میں مجھے ریسیو کرنے آئے ، وہاں پر رحیم شاہ باچہ کا اپنا ٹھیک ٹھاک بزنس ہے اور وہ ملکی معیشت کو آگے لے جانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ وہ ایک قانونی طریقے سے یورپ اور یوکے سے پاکستان میں اورسیز پاکستانیوں کے مزدوری کی رقم بھیجتے ہیں اور ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ،وہاں پر رحیم شا ہ باچہ نے دوستوں کا مضبوط نیٹ ورک قائم کیا ہے جہاں پر صوبے کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے دوستوں کی ہر رات بیٹھک ہوتی ہے اور پورے دن مشین کی طرح چلنے والے لوگ شام کو تھکان دور کرنے کیلئے ان کے ڈھیرے پر آکر تھکان ختم کرتے ہیں اور صبح دوبارہ روزی کی تلاش میں مگن ہوجاتے ہیں جب میں نے وہاں پر انکے بزنس مصرفیات دیکھےں تو صبح میں نے ان سے اجازت لینے کو کہا مگر ان کے دوستوں نے بتایا کہ آج شام چھ بجے باربی کیو اور رات کو قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کی آمد ہے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے میں نے اجازت مانگی تو وہ مجھے ٹرین سٹیشن لے گئے وہاں پر میرے لئے ،کارڈیپ ،کیلئے ٹکٹ بک کرانے کے ساتھ ساتھ میرے لئے ڈے ٹکٹ بھی خریدا اور ٹرین سٹیشن پر تصاویر بنانے کے بعد مجھے رخصت کیا ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب سے میں سنتا چلا آرہاہوں کہ گورے لوگ وفا نہیں کرتے اور شادی کی صورت میں بیوی بھی اپنا کام اور مرد اپنا کام کرتا رہے گا لیکن وہاں پر ایک دوست سے ملاقات ہوئی جس کی گرل فرینڈ تھی لیکن وہ پختون معاشرے کی ہاوس وائف کی طرح کام کر رہی تھی ہر آدھے گھنٹے بعد جوس اور چائے سے خاطر تواضع کراتی اور صبح ناشتے میں پاکستانی ناشتہ ،املیٹ ،انڈے اور چھولے پیش کئے اس نے مجھے گھر کی کمی محسوس نہ ہونے دی ۔رحیم شاہ باچہ سے رخصت کے بعد میںنے لندن برج ،واٹر برج اور دیگر مقامات کی خوب سیر کی ،یورپ کے ٹرین کے مقابلے میں انگلینڈ کے ٹرین کا طریقہ کار نہایت ہی آسان تھا اور ہر کوئی پہلی بار آنے والے کو کوئی بھی تکلیف نہیں ہوتی ،اس وجہ سے میں نے بھی خوب انجوائے کیا اور پورے لندن کے مزے لوٹے ،اکیلا ہونے کی وجہ سے کہیں بھی خوبصورت لڑکی دیکھتا تو اسکو تصویر بنانے کا کہہ دیتا اور اپنا دل بہلاتا رہتا ۔کارڈ ڈیپ میں سینئر صحافی اور میرے بھائی غلام فاروق سپین دادا کے سالے ناصر خان کے بار بار کال آرہے تھے کہ کہاں پہنچے لیکن ابھی میں روانہ نہیں ہوا تھا اور بس میں بیٹھتے ہی انکو تصویر واٹس ایپ کی، وہ بے تابی سے میرا انتظار کررہا تھا ، راستے میں بار بار فون کرکے حال احوال پوچھتا وہاں پہنچتے ہی وہ بس سٹیشن پر میرا انتظار کر رہا تھا، فریش ہونے کے بعد ان کے گھر سے سمندر کنارے نکل گئے لیکن رات ہونے کی وجہ سے سمندر ویران و سنسان پڑا تھا، وہاں بیٹھ کر کا فی انجوائے کی اور سرد موسم کے مزے لوٹے ۔شام کو گھر پہ بہترین کھانے کا انتظام کیا گیا تھا ، وہاں پر تحصیل کبل کے رہائشی لالا نے محفل کو چارچاند لگا دئے اور خوب گپ شپ ہوئی ۔اگلی صبح جانے کی خواہش پر ناصر خان ناراض ہوئے لیکن وقت کی کمی کا کہہ کر اور دوبارہ آنے کا وعدہ کرکے میں نے رخصت لی کیونکہ اس دوران ناصر خان اور اکرام اللہ خان کے بار بار فون آرہے تھے ، اگلے روز انہوں نے اسد خان دادا اور مشتاق خان کی دعوت کو ڈن کر دیا تھا اور انکا کہنا تھا کہ جلدی نکلو اور وہاں سے مانچسٹر تک تقریبا چھ گھنٹے کا سفر بھی تھا تو ناصر خان مجھے سٹیشن لے گئے وہاں پر میری ٹکٹ کرائی اور میں روانہ ہوگیا ۔لندن ،کارڈیپ اور دیگر شہروں میں مجھے اپنائیت محسوس نہیں ہو رہی تھی جس طرح کے مجھے مانچسٹر میں تھی،چھ گھنٹے کی مسافت کے بعد جب میں مانچسٹرپہنچ گیا اور وہاں پر سٹیشن پر موجود ناصر خان کو دیکھاتو لگا جیسے میں اپنے گھر واپس آگیا ہوں، سٹیشن سے باہر اکرام خان گاڑی میں انتظار کر رہے تھے ،اور پھر شروع ہوگئے ،سیاست پر ،مزے ،انجوائے اور وہ سب کچھ ایک بار پھر شروع ۔جلدی جلدی تیار ہوکر ویلز کی طرف نکل گئے جہاں پر تحصیل کبل کے شہید شیر خان کے بھائی اسد خان دادا اور مشتاق خان کے گھر عشائےے کا انتظام کیا گیا تھا لیکن اسد خان کافی عرصہ سے وہاں ہونے پر میں اسکو بھول چکا تھا لیکن چہرہ دیکھتے ہی وہی پرانی یادیں یاد آگئیں ،خٹک ،فرہاد ،اور وہی دن دوبارہ یاد آنے لگے، اس پر گرما گرم بحث بھی ہوتی رہی اور بہترین پاکستانی کھانو ں ،مٹر قیمہ ،کڑھی ،چاول ،مٹن اور گھر کے نان ،واہ کیا بات تھی وہاں بیٹھ کر بھی پاکستان میں موجودگی کا احساس ہوتا رہا ۔اگلے روز آرام کا مشورہ دیکر سب دوستوں کو کام پر جانے کا کہا اور میں آرام سے گھر میں لیٹ کر ٹی وی پر اے آر وائی ڈیجیٹل کے ڈراموں میں مگن ہوگیا ، اگلے روز میری یورپ کو فلائٹ تھی ،شام کو تمام دوستوں سے الوداعی ملاقات کے بعد صبح ہونے پر اکرام خان مجھے ائیر پورٹ چھوڑ گئے اور وہاں سے فلائٹ لے کر میں اٹلی کے شہر میلان روانہ ہوگیا ،اٹلی پورے یورپ میں تاریخی مقامات کیلئے مشہور ہے ،یہاں پر پوری دنیا سے لوگ تاریخی مقامات دیکھنے آتے ہیں جبکہ یہاں پر عیسائیوں کا سب سے بڑا چر چ ’ویٹی کن ‘بھی موجود ہے ، جان پوپ بھی یہاں رہتے ہیں ویٹی کن چرچ میں عیسائی اپنے مذہبی رسومات جبکہ سیاح سیر و تفریح کیلئے آتے ہیں اور یومیہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ یہاں آکر ان تاریخی مقامات سے محظوظ ہوتے ہیں ،اس طرح وینس ،کلوزئم سمیت پورا اٹلی دیکھنے کے قابل ہے ،وینس شہر پورا پانی میں بنایا گیا ہے اور اس میں ایسے ہوٹلز موجود ہےں جو پانی کے درمیان ہونے کی وجہ سے اسمیں جانے کیلئے کشتی کا استعمال کرنا پڑتا ہے، یہ نہایت ہی خوبصورت اور تاریخی شہر ہے ،اٹلی میں معاشی حالات آجکل خراب ہےں لیکن سیاحت کی وجہ سے ابھی تک سنبھلا ہوا ہے اور سیاحت ہی سے عوام کا ذریعہ معاش چل رہا ہے ،ائیرپورٹ اترتے ہی وہاں پر کانجو کے سہیل خان کا فون آیا کہ میں باہر انتظار کر رہاں ہوں ،میں نے امجدخان کا پوچھا تو پہلے سے میسیج ملاہوا تھا کہ موٹر وے پر حادثہ ہوا ہے اور وہ وہیں پر موجود ہے چونکہ امجد خان موٹر وے پر سپر وائیزر ہے اس وجہ سے انہیں ابھی آنا مشکل تھا ، سہیل کے گھر کھانا کھانے کے بعد آرام کیا تو شام کو امجد خان اور اسکا دوست آئے اور باہر واک پر نکل گئے،ندی کنارے واک کرتے ہوئے مجھے بتایا گیا کہ اسی ندی میں دو بچے ڈوب گئے تھے تو انتظامیہ نے اس کے ارد گرد حفاظتی اقدامات کئے اور اب ندی کے قریب جانا ممنوع قرار دیا گیا ہے تو میرے ذہین میں دریائے سوات کا خیال آیا کہ ہر سال یہی دریا تیس سے چالیس سیاحوں کی جا ن لیتا ہے لیکن مجال ہے کہ یہاں پر حکومت یا انتظامیہ کی جانب سے ،دریائے کے پاس نہ جانے کے سائن بورڈ بھی نصب کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہو ، اسی روز جب میں انگلینڈ میں تھا تو کراچی والوں کا تازہ واقعہ پیش آیا تھا جس میں بچی دریائے سوات میں گر گئی تھی اور والد نے بچی کو بچانے کیلئے چھلانگ لگائی اور خود بھی دریا برد ہوگیا ، جب مدین کے مقام پر انکی لاشیں نکالی گئیں تو وہاں پر ان کے بیوی بچوں کا دل دہلانے والا منظر کوئی نہیں بھول سکتا ،میلان میں موجودگی کے وقت مجھے جرمنی کے شہر، مگدی برگ ،جانے کیلئے ٹکٹ کا مسئلہ پیش آرہا تھا کیونکہ وہاں سے ٹرین میں تقریبا پندرہ گھنٹے اور بزریعہ بس 24 گھنٹے کے سفر کا سن کر میرے تو اوسان خطا ہوگئے اس بات پر پورے سیر کا مزا ہی خراب ہوا کہ اتنے میں مجھے، نیدر لینڈ ،میں موجود شمس کی یاد آئی اور انکی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، اس نے ایک ایسا ٹکٹ دیا جسکی میں ان سے توقع رکھتا تھا کیونکہ جب بھی کبھی یورپ میں مجھے اور غلام فاروق سپین دادا کو ٹکٹ کے حوالے سے مسئلہ ہوتا تو ہم شمس بھائی کو ہی یاد کر لیتے اورشمس بھائی نے میلان سے مگدی برگ تک دو گھنٹے میں پہنچنے والے فلائٹ کا ٹکٹ فراہم کیا جس سے میری خوشی دوبالا ہوگئی ،اگلے صبح ناشتہ کرنے کے بعد ہم ،تورین ائیر پورٹ روانہ ہوئے اور120 کلومیٹردور ائیرپورٹ کو جاتے ہوئے راستے میں مختلف مقامات کی سیر کے بعد امجد خان مجھے ائیرپورٹ چھوڑ گئے، وہاں سے برلن کیلئے اڑان بھرلی ۔دو گھنٹے کے ہوائی سفر کے بعد وہاں پر ائیرپورٹ پر میرے ماموں امجد خان میرا انتظار کر رہے تھے لیکن اسکے ساتھ سردار عالم خان کو دیکھا تو بہت خوش ہوا کیونکہ جب میں یوکے میں تھا تو سردار عالم خان مسلسل رابطے میں رہے اور جرمنی میں ماما جی کے ہاں آنے کا میں نے کہا تھا اور وہی ہوا وہ پہنچ گئے وہاں پہنچتے ہی مارکیٹ میں چلے گئے اور رات کو کھانے کیلئے سودا سلف خریدا ،چونکہ ماما جی کے گھر پر کھانا پکانا ہم خود ہی کرتے ہیں، کھا نے پینے کا انتظام کیا اور آخر کار پہنچ ہی گئے ،اگلے روز صبح شروع ہوئی ،چونکہ ہماری صبح دوپہر کو شروع ہوتی تو ہم سیر پر نکل گئے اور خوب سیر سپاٹا کیا ۔امجد ماماجی مجھے وہاں جیل پر لے گئے ،جہاں پر اس حویلی نمایاں جیل میں تین ملزم ہوا کرتے تھے ،اب اسکو گیسٹ روم میں تبدیل کیا گیا ہے اور وہ بھی اس طرح کے گیسٹ روم کہ اگر کوئی قیدی کی زندگی دیکھنا چاہتا ہے تو اسے پیسے دیکر وہاں قیدی کی طرح رات گزارنی پڑتی ہے، اس سے باقاعدہ اسکے کھانے پینے کا مینو اور سب کچھ پوچھنے کے بعدچارجزلے کرپھر وہ جتنی راتیں وہاں گزار نا چاہیں اسے قیدی کی طرح رکھا جائیگا ۔ہمارے ہاں تو سوات جیل زلزلے میں تباہ ہونے سے کئی سال گزرنے کے باوجود تعمیر نہ ہوسکا اور جہاں جیل موجود ہے اسمیں سو کی گنجائش والی جگہ میں ایک ہزار قیدی ٹھونسے جاتے ہیں، جرمنی کے محل نما جیل میں کبھی تین قیدی تھی اورکافی عرصہ نہ ہونے پر اس کوگیسٹ ہاوس قرار دیا گیا ۔امجد ماما جی کا کہنا تھا کہ یہاں پر ایک شخص نے کسی کا خون کیا ،جب پولیس آئی تو اس نے انکار کردیا کہ اس نے خون نہیں کیا ہے پولیس اسے چھوڑ کر واپس چلی گئی اور کچھ عرصہ بعد وجب واپس آئی تو انہوں نے کوئی اٹھارہ بیس ہزار یوروز کا بل اٹھائے اس شخص کو کہا کہ آپ پر یہ جرم ثابت ہوچکا ہے اسلئے آپ پندرہ روز بعد اسی رقم کے ساتھ فلاں جیل جائیں گے اور اسے پندرہ روز کا وقت اپنے کام نمٹانے کیلئے دیا گیا ، پندرہ روز بعد وہی شخص جیل چلا گیا ،اس بات پر مجھے تھوڑی ہنسی آئی کیونکہ ایک شخص خون کرتا ہے پولیس کو پتہ ہونے کے باوجود اسے کچھ نہیں کہتی اور نہ وہ شخص فرار ہوتا ہے ،ہمارے ہاںتو قاتل کیلئے دس منٹ تک کافی ہوتے ہےں پھر سالہا سال تک اسکو ڈھونڈنے میں لگتے ہیں اور ایسا بھی کئی دفعہ دیکھنے کو ملا ہے کہ بے گناہ شخص کو دس دس سال جیل میں رکھنے کے بعد اسے بے گناہ قرار دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے ،اور انکے زندگی کے اس دس سالوں کا حساب کوئی مانگے تو کس سے مانگے ۔وہاں پر مگدی برگ کے سب سے بڑے ہسپتال میں گئے ،ویران و سنسان ،صرف ایک مریض تھا اسمیں وہ بھی اپنے ماہانہ میڈیسن لینے کیلئے آیا تھا ،یہاں ہسپتال میں جاتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا سوات بیمار ہے ،کچہری میں جائیں تو تمام لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں کیونکہ ہم نے خود اپنی ہی زندگی اجیرن بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے اسمیں کسی کا کوئی دوش نہیں معمولی معمولی باتوں کو لیکر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور وہی لوگ ہفتے میں پانچ دن ڈیوٹی او ر ہفتہ اور اتوار کے دو دن اسے اڑا دیتے ہیں ،ہم نے تو دو کمروں کے گھر کو تین کمرے بنانا ہے ،بچوں کے سکول کے فیس؟ اللہ نہ کرے اگر کوئی بیمار ہوجائیں اسکا کیا کرنا ہے ،اور یہی غم لئے ہم نے اپنی زندگی کو غموں میں تبدیل کردیا ہے خیر وہاں پر تین راتیں گزارنے کے بعد سردار عالم خان کے دانتوں کے ڈاکٹر کے ساتھ اپوائمنٹ تھی تو اگلے روز وہ اپنے ہی شہر روانہ ہوگیا اور اسے سٹیشن پر چھوڑ کر میں اور ماماجی مارکیٹ میں چلے گئے وہاں پر سرائے عالمگیر کے ایک تاجر سے ملاقات ہوئی اور آدھا دن اس سے سیاست پر چھیڑ چھاڑ ہوئی لیکن بندہ بڑا دلچسپ تھا ،پاکستان میں انکا خاندان سیاسی تھا اب بھی ان کے دو بھائی ایم پی اے ،ایم این اے ہےں اور پورا خاندان سیاست میں ہے ، وہ خود بھی کافی سیاست میں سمجھ بوجھ رکھتا تھا تو اس سے بات کرتے ہوئے مزہ آرہا تھا ،ہر دس پندرہ منٹ بعد چائے کافی لے کر آتا اور پنجابیوں میں خاندانی یعنی پختون تھا ۔ آخر کار ہم سیاست میں اتنا آگے چلے گئے کہ میں نے تنگ آکر اسکو ان کی ڈائری میں پورا ڈیٹیل لکھ دیا کہ میں ہر سال آتا ہوں اور اگلے سال میں آکر یہاں سے پھر بات شروع کرینگے اور انہوں نے نوٹ کرلیا لیکن بندہ کمال کا تھا اور عمران خان کا پکا چاہنے والا تھا اگلے روز گیارہ بجے میں فرینکفرٹ کیلئے نکلا چھ گھنٹے کا ٹرین میں سفر ،وہاں پر آفتاب علی غواریجو خان کا بھائی احسان علی ٹرین سٹیشن پر کھڑا ریسو کرنے آیا ،جب میں جرمنی میں تھا تو وہاں پر اطلاع ملی کہ امریکہ میں مور جان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو ہر سہ پہر کو ہم کانفرنس کال پر بات کرتے اسی دوران مجھ سے سٹیشن چھوٹ گیا اور میں آگے نکل گیا ، احسان علی بار بار فون کئے جا رہا تھا کہ سٹیشن پر ٹرین رکھی لیکن آپ نہیں اترے تو آگے سٹیشن پر میں اتر گیا اور وہاں سے دوسری ٹرین میں بیٹھ کر ان لوگوں کے پاس آن پہنچا،احسان علی کے فلیٹ پر جانے کے بعد نماز پڑھی اور انور علی اور آفتاب علی کو ریسیو کرنے نکل گئے تو وہاں پر ابراہیم خان عرف گل باچا پہلے سے موجود تھے اور یوں وہاں پر انور علی اور آفتاب علی کے ساتھ بارہ روز بعد ملاقات ہوئی، وہاں سے گل باچا کے فلیٹ اور وہاں سے انکے باغ پر نکل گئے انہوں نے وہاں پر بالکل سوات جیسا ماحول بنا رکھا تھا ،کھیت بنایا تھا اور اس باغ میں شام کو تمام دوست اکٹھے ہوجاتے تھے جن میں ہزارہ کے منور شاہ ،ابراہیم کے چھوٹے بھائی سلیمان ،انکے والد حاجی صاحب ،فرمان علی،افغانستان کے ہارون بھائی ،کبل کے گلونوماماجی ،سمیت دیگر دوستوں سے خوب گرما گر م بحث شروع ہوجاتی کیونکہ یہ لوگ ایک مائنڈ کے اور ہم دوسرے مائنڈ کے تھے ،تو ہر رات گرما گرمی لگی رہتی ۔اگلے روز ہم احسان علی کیلئے پیزا ،کی دکان دیکھنے گئے جہاں پر منور شاہ عرف شاہ صاحب ہمارے ساتھ تھے اور آفتاب علی کو وہ دکان دکھائی اس سے پیزا کھایا اور واپسی ہوئی،حاجی انور علی حسب روایت کھانا پکانے پر لگ گئے اور انہوں نے جو چاول بنائے اور وہاں پر ان لوگوں نے چکے ،بس اب تو حاجی صاحب مستقل ہمارے کک بن گئے اور ہر رات کھانا وہی بناتے ، یہ دو تین روز ہم نے شاپنگ کیلئے مختص کر لئے وہیں سے مارکیٹ کےلئے نکل کر شام کو ہی واپس آتے ،لیکن صدر عبدالرحیم کیلئے خاکی سویٹر نے ہمارے دو دن ضائع کئے چونکہ وہاں پر گرمی تھی اس وجہ سے سردی والے ملبوسات ناپید تھے، دو دن کی تگ و دودکے بعد آخر کار اسی طرح کا شرٹ ملا جو خرید لیا،اسی رات باغ میں بیٹھے کہ گلونو ماماجی کھانا کھانے کے بعد آپے سے باہر ہوگئے اور اتنی فری گپ شپ شروع کی کہ ہمارے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا ، اتنا ہنسے کہ صبح استغفار کا ورد کرتے رہے،ادھر ایک دوسرے دوست کیلئے بھی خریداری کرنی تھی کہ آخر میں حاجی انور علی نے آفاق کی فرمائش پوری کرنی تھی ، اسے ایک مائیک چاہئے تھا،یوں ایک دن اس پر لگا لیکن پھر بھی نہیں ملا فرینکفرنٹ میں دو تین دن گزارنے کے بعد اگلی صبح ہمارا بوریا بستر گول ہونا تھا تو ہم نے وہاں پر ہارون بھائی کو کہا کہ ہمیں ائرپورٹ چھوڑنا ہے، وہ ہمیں ائرپورٹ چھوڑ گئے اور وہیں پر ہمارا یورپ کا سفر اختتام پذیر ہوا، فرینکفرٹ سے قطر اور قطرسے اسلام آباد کا سفر نہایت ہے خوش گوار رہا کیونکہ ہم اپنے وطن واپس آرہے تھے جس کی خوشی میں ہمارا سفر ی تھکان کچھ بھی نہیں تھا ، اسلام آباد ائر پورٹ پر پہنچتے ہی اللہ کا شکر ادا کیا اور عدالت خان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر سوات کی طرف روان ہوگئے ۔

Discussion about this post

انٹرمیڈیٹ رزلٹ

مقبول عام

  • Trending
  • Comments
  • Latest
سوات کا ایک اور اعزاز،لیکچرر خان بہادرکی صوبہ بھر میں پہلی پوزیشن

سوات کا ایک اور اعزاز،لیکچرر خان بہادرکی صوبہ بھر میں پہلی پوزیشن

November 28, 2019
دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کرتے وقت حکومت سے کونسی غلطی ہو ئی ؟ حامدمیر نے سوالیہ نشان اٹھا دیا

وزیر اعظم کی کرسی خطرے میں پڑ گئی۔۔عمران خان کی وہ 3 باتیں جو اسٹیبلشمنٹ کو ناگوار لگنے لگی،نئے وزیر اعظم کا فیصلہ کرلیا گیا

December 6, 2019
162 پاکستانی افغانستان کے قبضے میں ! کابل ائیر پورٹ پر پی آئی اے کی پروازکواسلام آباد جانے سے روک دیا گیا

162 پاکستانی افغانستان کے قبضے میں ! کابل ائیر پورٹ پر پی آئی اے کی پروازکواسلام آباد جانے سے روک دیا گیا

December 9, 2019
طلباء و طالبات محنت،لگن اور شعور سے تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کریں،جی او سی مالاکنڈ

طلباء و طالبات محنت،لگن اور شعور سے تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کریں،جی او سی مالاکنڈ

December 9, 2019
ضابطہ دیوانی اور انٹی نارکاٹکس ایکٹ میں ترامیم کے خلاف سوات کے وکلاء کا احتجاج

ضابطہ دیوانی اور انٹی نارکاٹکس ایکٹ میں ترامیم کے خلاف سوات کے وکلاء کا احتجاج

December 9, 2019
ٹمبر مافیا کے خلاف جاری اپریشن میں سوات پولیس کی ایک اور کامیابی

ٹمبر مافیا کے خلاف جاری اپریشن میں سوات پولیس کی ایک اور کامیابی

December 9, 2019
ADVERTISEMENT
  • Trending
  • Comments
  • Latest
کیا بھٹو کو پھانسی سے پہلے ہی مار دیا گیا تھا؟ وہ شخص کون تھا جو بھٹو کا پاجامہ اتار کر پوشیدہ اعضاء کی تصاویر بناتا رہا؟ حامد میر کے سنسنی خیز انکشافات

معاملات طے پاگئے،وزیراعظم عمران خان کس تاریخ کو استعفیٰ دے دیں گے؟سابق فوجی افسر کا حامد میر کو ٹویٹ میں انکشاف

October 22, 2019
سوات،اورنگزیب عرف رنگے نے 300 سے زائد بچوں کو اغوا کرکے انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا

سوات،اورنگزیب عرف رنگے نے 300 سے زائد بچوں کو اغوا کرکے انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا

March 7, 2019
جلسے میں خواتین سے بدسلوکی !عمران خان طلب کیا جاسکتا ہے‘ رانا ثناءاللہ

رانا ثناء اللہ کیس کی سماعت کرنے والا جج تبدیل

October 22, 2019
’’پچھلے ہفتے ہی شادی اور اب طلاق‘‘ سیالکوٹ کے لڑکے سے بیاہ رچانے والی امریکی عورت کا بھیانک چہرہ بے نقاب،ماریا کیسے لڑکوں کو اپنے جال میں پھنساتی رہی؟ہوشربا انکشاف

’’پچھلے ہفتے ہی شادی اور اب طلاق‘‘ سیالکوٹ کے لڑکے سے بیاہ رچانے والی امریکی عورت کا بھیانک چہرہ بے نقاب،ماریا کیسے لڑکوں کو اپنے جال میں پھنساتی رہی؟ہوشربا انکشاف

November 19, 2018
کوہاٹ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے صحافی قتل

کوہاٹ میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے صحافی قتل

0
بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر پاکستان کی تشویش

بنگلہ دیش میں پھانسیوں پر پاکستان کی تشویش

0

جہلم میں توہینِ مذہب کے مبینہ واقعے کے بعد کشیدگی، فوج تعینات

0
پرستان سے واپسی

پرستان سے واپسی

0
طلباء و طالبات محنت،لگن اور شعور سے تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کریں،جی او سی مالاکنڈ

طلباء و طالبات محنت،لگن اور شعور سے تعمیر و ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کریں،جی او سی مالاکنڈ

December 9, 2019
ضابطہ دیوانی اور انٹی نارکاٹکس ایکٹ میں ترامیم کے خلاف سوات کے وکلاء کا احتجاج

ضابطہ دیوانی اور انٹی نارکاٹکس ایکٹ میں ترامیم کے خلاف سوات کے وکلاء کا احتجاج

December 9, 2019
ٹمبر مافیا کے خلاف جاری اپریشن میں سوات پولیس کی ایک اور کامیابی

ٹمبر مافیا کے خلاف جاری اپریشن میں سوات پولیس کی ایک اور کامیابی

December 9, 2019
162 پاکستانی افغانستان کے قبضے میں ! کابل ائیر پورٹ پر پی آئی اے کی پروازکواسلام آباد جانے سے روک دیا گیا

162 پاکستانی افغانستان کے قبضے میں ! کابل ائیر پورٹ پر پی آئی اے کی پروازکواسلام آباد جانے سے روک دیا گیا

December 9, 2019
  • About
  • Advertise
  • Privacy & Policy
  • Contact

© 2018 - Zamung Swat News & Design s by Kinghost Solutions.

No Result
View All Result
  • Home Page
  • Swat News
  • Swat Videos
  • Swat Tourism
    • Swat Photos
  • National News
  • Sports
  • Articles

© 2018 - Zamung Swat News & Design s by Kinghost Solutions.

Login to your account below

Forgotten Password?

Fill the forms bellow to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.