تحریر : افتخار احمد زمان
ہر سال دنیا بھر میں آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اس حوالے سے خصوصی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ خواتین کا یہ عالمی دن پہلی بار آٹھ مارچ 1911 میں منایا گیا، جس میں خواتین کو مساوی حقوق دلانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پراسلام آباد، لاہور، کراچی سمیت پاکستان کے دیگر بڑے شہروں میں باقاعدہ مارچ اور تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں البتہ اس حوالہ سے صورتحال مختلف ہے۔ وہاں کی خواتین کو پتا تک نہیں ہوتا کہ دنیا میں ان کے لیے مخصوص کوئی دن بھی منایا جاتا ہے۔ اس لاعلمی کی بڑی وجہ پاکستان میں خواتین کی ناخواندگی کا تناسب ہے۔ ملک میں خواتین کی ناخواندگی کا تناسب 48.35 فیصد ہے۔ بالخصوص خیبر پختونخواہ کی بات کی جاۓ، تو یہاں خواتین کی نا خواندگی کا تناسب 69 فیصد ہے۔ یہ تناسب نہایت مایوس کن اور قابل افسوس ہے۔ ناخواندگی کے باعث خواتین لکھ سکتی ہیں نہ پڑھ سکتی ہیں۔ اس صورتحال میں اگر یہاں کی خواتین کو اپنے عالمی دن کے حوالہ سے کوئی معلومات میسر نہ ہوں تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اس دن خواتین کی اکثریت اپنے بنیادی حقوق سے بے خبر معمول کی طرح گھر کے کام کاج میں مگن رہتی ہیں۔ جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آج بھی خواتین کو مردوں کے برابر حقوق نہیں مل رہے ہیں۔
خواتین کی ناخواندگی کی بڑی وجہ مذہبی اور ثقافتی روک ٹوک ہے۔ جس سے ان خواتین کو حصولِ تعلیم میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خواتین کی بہ نسبت مردوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ لڑکوں کی تعلیم پر زیادہ پیسے خرچ کیے جاتے ہیں۔ انہیں اعلی تعلیم کے لیے شہر یا ملک سے باہر بھیجنے کا رواج بھی عام ہے۔ مذہبی حوالے سے ایک تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ خواتین کا تعلیم حاصل کرنا بے معنی ہے جوکہ سراسر غلط ہے۔ حدیث ہے کہ ” علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت )پر فرض ہے۔ ” جب تک خواتین کو معیاری اور جدید تعلیم کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہوگا، تب تک کسی بھی معاشرے میں خواتین کا مردوں کے برابر ہونا اور صنفی امتیاز کا ختم ہونا محض ایک خام خیالی ہوگی۔
قارئین ! ہمارے ہاں ایک رسم سی چلی ہے کہ لڑکیوں کو پہلے تو تعلیم سے دور رکھا جاتا ہے۔ اگر انہیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ملتی بھی ہے تو یہ اجازت صرف دسویں تک تعلیم سے مشروط کی جاتی ہے۔ اس کے بعد لڑکیوں کو مزید تعلیم حاصل کرنے سے اس لیے روک دیا جاتا ہے کہ انہیں آج نہیں تو کل، پرائے گھر رخصت ہونا ہے۔ عموماً لڑکی سے پوچھے بغیر اس کی شادی کسی بھی انجان شخص سے کرادی جاتی ہے۔ حالاں کہ کسی سے شادی کا فیصلہ خالصاً لڑکی کی رضامندی پر منحصر ہونا چاہیے۔ یہ ان کی زندگی کا ایک اہم ذاتی فیصلہ ہوتا ہے کیونکہ زندگی میاں بیوی نے ہی ساتھ میں گزارنی ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے۔” اس کے باوجود لڑکی کی رضامندی حاصل کیے بغیر رشتہ طے کرنے کا یہ مکروہ رواج جاری ہے۔ حالانکہ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں جس میں دونوں کا برابر کردار اہم اور نا گزیر ہے۔
پاکستان کے کئی دیہی علاقوں میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں میں سخت کام اور مشقت کرتی ہیں۔ دور دراز کی ندیوں اور چشموں سے پانی لاتی ہیں۔ بچوں کی پرورش، مردوں اور گھر کے تمام افراد کا خیال رکھنے کے علاوہ ہر وہ کام بھی کرتی ہیں جو ایک مرد کرتا ہے۔ اس کے باوجود خواتین کو ان کی زندگی یا معاشرے کے کسی بھی پہلو پر بات کرنے یا ان سے مشورہ کرنے کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ شادی کے بعد اگر مرد اور عورت میں باہمی اتفاق نہ ہو تو وہ زندگی میں موثر اور بہتر فیصلے کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ قرآن پاک میں سورۃ بقرہ آیت (338) میں فرمایا گیا کہ ” عورتوں کے حقوق اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے مردوں کے حقوق کے برابر ہیں۔” دوسرے مذاہب کی بہ نسبت اسلام جدید اور روز قیامت تک قائم رہنے والا آخری دین ہے۔ اس لیےاسلام نے عورتوں کے حقوق کی بات بار بار کی ہے اور انہیں مردوں کے متوازی حقوق دیے ہیں۔
جہاں تک لڑکی کی ایک نہ ایک دن پراۓ گھر میں رخصتی کی تاویل کی وجہ سے ان کے حصول تعلیم پر قدغن لگانے اور اسے غیرضروری سمجھنے کی بات ہے، تو یہ سراسر غلط ہے کیونکہ اگر آپ اپنی بچی کو اچھی تعلیم دیتے ہیں، انہیں کسی خاص شعبے میں اعلیٰ تعلیم دلواتے ہیں، ان کے لیے ایک اچھا اور منافع بخش کاروبار فراہم کرنے کا راستہ ہموار کرتے ہیں، تو اس سے وہ زندگی میں آگے جاکر ایک خودمختار اور بااختیار خاتون کے طور پر ابھرتی ہے۔ جو اپنا فیصلہ کرنا جانتی ہے۔ جو زندگی میں آنے والی دشواریوں کا سامنا کرسکتی ہے۔ وہ ایک ایسی خاتون بن جاتی ہے جسے دوسروں کی کمائی کا محتاج نہیں بننا پڑنا۔ ایسی خاتون پھر آزادانہ طریقے سے اپنے فیصلے کرسکتی ہے۔ ایک کامیاب عورت مرد کے سہارے نہیں بلکہ مرد کے برابر چل کر بھی اچھی زندگی گزار سکتی ہے۔
تعجب اس بات پر ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اگر اس کے گھر کی خواتین بازار جائیں تو انہیں دکاندار کی صورت میں ایک خاتون ملے۔ اہلیہ کا چیک اپ کرانے جائے تو کوشش ہوتی ہے کہ خاتون ڈاکٹر سے معائنہ کرواۓ۔ بچیوں کو سکول یا ٹیوشن دینا مقصود ہو تو ایک خاتون کو ترجیح دی جاتی ہے۔ چاہتے ہیں کہ گھر کی خواتین شناختی کارڈ کے دفتر، تھانہ ، کچہری یا کسی بھی سرکاری ادارے میں جائیں تو انہیں خواتین کی شکل میں سرکاری خدمات ملے۔ لیکن یہ ناممکن اس لیے ہے کہ جب ہم اپنی خواتین کو تعلیم نہیں دلواسکتے تو پھر ایسی توقع کیسے کرسکتے ہیں؟ وہ خاتون جو تعلیم یافتہ ہو، جو عملی زندگی میں کسی نہ کسی شعبے میں کام کرتی ہو، وہ بہتر طریقے سے گھر چلاسکتی ہے۔ ایسی خاتون اپنے بچوں کی بہترین پرورش کرکے معاشرے کو مفید شہری دے سکتی ہے۔
ہماری سب سے بڑی جیت یہی ہوگی کہ جب ہم اپنے معاشرے میں خواتین کو انسان سمجھ کر ان کے احساسات و جذبات اور اندرونی کیفیات کو جاننے کی کوشش کریں ۔
قارئین ! تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کسی بھی قوم نے خواتین کو ان کے حقوق دلوائے بغیر ترقی نہیں کی۔کوئی معاشرہ اگر ترقی کے منازل طے کرسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف مرد اور عورت کے مساوی کردار کی بنیاد پر کرسکتا ہے۔آج ان اقدامات کی اشد ضرورت ہے کہ بین الاقوامی معاہدوں میں جن حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، ملک میں وہ قوانین نافذ کرکے خواتین کو ریلیف دیا جائے۔ ان کو سیاسی اور فیصلہ ساز اداروں میں نمائندگی دی جائے تاکہ وہ اقتدار تک رسائی حاصل کرسکے۔ خواتین کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے بھر پور مواقع دیے جائیں۔ سب سے بڑھ کر، ان خواتین کا تحفظ یقینی بنایا جائے جو اس ملک میں عملی زندگی کے کسی بھی شعبے میں کام کرتی ہوں۔
Discussion about this post